زیادہ زیور نہیں ہوتا تو وہ شادی میں شرکت کرنے کے لیے مانگے تانگے کا زیور پہن کر جھوٹے وقار (یعنی خلافِ واقعہ اپنی امارت) کا اظہار کرتی ہے۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ دلہن کو بھی مانگے تانگے کا زیور پہنا کر یہ غلط تأثر دیا جاتا ہے کہ لڑکے والوں نے دلہن کے لیے اتنا زیور تیار کیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا اور دو تین دن کے بعد وہ زیور دلہن سے لے کر اصل مالکوں کو دے دیا جاتا ہے۔ یہ جھوٹی کاروائی بھی فساد اور بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ اور اب تو سونے کے بجائے مصنوعی زیورات نکل آئے ہیں جو دیکھنے میں بالکل سونے کے معلوم ہوتے ہیں اور ان کی مالیت چند سیکڑے ہوتی ہے جبکہ سونے کے اصل زیورات کی مالیت اب لاکھوں میں ہے۔ دھوکہ دہی کی یہ صورت بھی اب اختیار کی جانے لگی ہے، بعد میں جب حقیقت حال سامنے آتی ہے تو یہ ملمع سازی بھی فساد ہی کا باعث بنتی ہے۔ اس حدیث ِ رسول کی رو سے ملمع سازی اور فریب کاری کی ایسی ساری صورتیں ناروا قرار پاتی ہیں، مانگے تانگے کا زیور پہن یا پہنا کر جھوٹی شان و شوکت کا اظہار یا آرٹی فشل کے زیورات کا استعمال یہ باور کراکر کہ یہ سونے ہی کے زیورات ہیں۔ یہ سب ناجائز، ممنوع ہیں اور فساد و بگاڑ کا باعث ہیں۔ دکھلاوے اور نمودونمائش کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ مکروفریب کی یہ ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اس لیے کہ شادیوں میں دیگر بہت سی خرافات کے ساتھ ساتھ سونے کے زیورات کو بھی ایک لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے جب کہ ہماری شریعت میں ان رسومات، فضول خرچی، ناروا بوجھ اور نمودونمائش کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اس کا حل بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ شادی کے اخراجات سے سونے کے زیورات کو بھی یکسر خارج قرار دیا جائے۔ سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاء"1 ’’میں نے اپنے بعد ایسا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا، جو عورتوں سے زیادہ مردوں کے لیے نقصان دہ ہو۔‘‘ وضاحت: یعنی مردوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا فتنہ ہو گا جو میرے بعد رونما ہو گا۔ حالانکہ عورت کا وجود انسان کے لیے راحت و آسائش اور امن و سکون کا باعث ہے۔اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے: |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |