Maktaba Wahhabi

196 - 453
اسے برداشت نہیں کرسکتی، خواتین کے متعلق کمنٹس کرتے یا ان سے بات کرتے وقت ایسے الفاظ کہے جاتے ہیں جو اسلامی اخلاق تو کجا انسانیت کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں ، حیا کی چادر اتار پھینکی جاتی ہے، جبکہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:گزشتہ نبوتوں سے جو بات لوگوں تک پہنچی ہے وہ یہی ہے کہ : جب تم میں حیا باقی نہ رہے تو جو مرضی میں آئے کرتے چلے جاؤ۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (3) اخلاقی گراوٹ اور فحاشی و عریانی انٹرنیٹ پر سوشل ویب سائٹس یعنی ’’فیس بک، ٹوئٹر، گوگل پلس ، آرکٹ‘‘ وغیرہ کے آجانے کے بعد جہاں رابطوں میں سہولت ہوئی ہے وہیں اس کے ذریعہ بہت سے شیطانی راستے بھی کھل چکے ہیں ، اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی انہی سوشل ویب سائٹس پر دوستی ہوتی ہے جو انہیں آہستہ آہستہ گناہ کی طرف مائل کرتی ہے، ان سوشل ویب سائٹس کے آجانے کے بعد کورٹ میرج کے تناسب میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے، صرف اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ میں سال 2010 میں 250کورٹ میرج ہوئیں ، اور سال 2011 میں یہ تعداد 350 سے متجاوز تھی[1]۔ اختر محمود ایڈوکیٹ اسلام آباد عائلی عدالت کے وکیل ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کورٹ میرج کے لئے آنے والے لڑکے لڑکیوں میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کی دوستی ’’فیس بک‘‘ یا ’’ٹوئٹر ‘‘ پر ہوتی ہے، اور پھر کورٹ میرج کے بعد بہت ہی کم ، شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ یہ شادیا ں برقرار رہیں، اسی طرح کئی کیس ایسے بھی ہیں جن میں ایک غیر شادی شدہ لڑکی کسی شادی شدہ مرد سے اس لئے شادی کرلیتی ہے کہ اس لڑکی کا تعلق کسی پسماندہ خاندان سے ہوتا ہے ، اور مرد امیر ہوتا ہے۔[2] اسی طرح یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ انٹر نیٹ پر فحش مواد کتنی آسانی سے دستیاب ہے ، اور یہ فحش مواد ہماری نوجوان نسل کو اتنی بڑی تباہی کی طرف لے جارہا ہے جس کا شاید ہمیں ابھی اندازہ بھی نہیں ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق انٹرنیٹ پر تقریبا 35 کروڑ ویب سائٹس موجود ہیں ، ان میں
Flag Counter