Maktaba Wahhabi

280 - 453
ہیں یہ سوچنے کا مجھے اور آپ کو خیال نہیں حالانکہ عورت کے لئے اس دنیا میں رونق لفظ معروف ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کو ایمان قرار دیا ہے:’’ حیا اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں ان میں سے اگر ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا خود بخود اٹھ جاتا ہے‘‘ [1] اور جب معاشرے سے یہ خیر رخصت ہو جائے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو‘‘[2]اور جب ایمان نہ رہے تو زندگی کا مقصد پھر یہی ہوتا ہے جس کا آئینہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا :’’ میری امت میں کچھ لوگ ہوںگے جو نعمتوں میں پروان چڑھیں گے اور وہ کھاتے پیتے رہیں گے ان کا مقصد زندگی میں رنگا رنگ کھانے اور طرح طرح کے لباس پہننا ہوگا وہ سنوار سنوار کر باتیں کریں گے۔وہ میری امت کے شریر ترین لوگ ہوں گے ‘‘[3]یہی یہود کا مقصد تھا جس میں ان کی کامیابی کی سیڑھی ہماری اپنی مسلمان عورتیں بنیں۔ خبروں کے نام پر شبہات کا پرچار یہ وہ جال ہے جس کی وجہ سے اچھے خاصے سمجھدار انسان کو مخبوط الحواس بنادیا گیا ہے۔ آج صحیح، غلط، حق و باطل کا معیار یہ نیوز چینلز اور ان پر نشر کئے جانے والے پروگرامز اور خبریں کرتی ہیں، حیرت کی بات ہے وہی عورتیں جو بے حیائی کا پیکر بنی ہوتی ہیں۔ منافقت کا لبادہ اوڑھ کر دین کی نشرو اشاعت میں مصروف بھی نظر آتی ہیں ۔ مسلمان کو دین سے ہٹایا نہیں جاسکتا اسی بنا پر یہود نے دین کے نام پر ہی بگاڑ پیدا کیا جس کی بنا پر ہماری لڑکیاں اور عورتیں دونوں ہی چیزوں کو صحیح سمجھتی ہیں وہ دین کو ایک الگ کنار ے پر اور دنیا کو الگ کنارے پر رکھتی ہیں اور جس کی طرف بھی رخ کر تی ہیں ان کا اپنا فہم یہی ہوتا ہے کہ یہ بھی جائز ہے ۔ میڈیا ہی وہ قوت ہے جو ہماری عورتوں کو تیارکرتا ہے خواہ وہ دنیا کا معاملہ ہو یا دین کا خصوصاً عورتوں نے اسی میڈیا کو اپناعالم اور پیشوا بنایا ہوا ہے ۔سیدناعبد اللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سمندر میں کچھ شیاطین قید ہیں جنہیں سلیمان علیہ السلام نے باندھ رکھا ہے قریب ہے کہ وہ نکل آئیں گے اور لوگوں پر قرآن پڑھیں گے۔‘‘ [4]یا پھر ایسی
Flag Counter