Maktaba Wahhabi

25 - 453
امن وآشتی کا گہوارہ بن جائیں ، تو اس کیلئے ہمیں اسی دور اول کا جائزہ لینا ہوگا اس میں سب سے اعلیٰ مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی معاشرہ کی تشکیل ہے ۔ پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نئے مدنی معاشرے کی تشکیل سے رہنمائی ضروری ہے : فرمان باری تعالیٰ ہے : [لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا ۝ۭ] [الأحزاب: 21] ترجمہ: (مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے، جو بھی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے نزدیک مکہ چھوڑنے کا مطلب صرف یہ نہیں تھا کہ مکی لوگوں کے فتنے اور تمسخر سے نجات پائی جائے ۔بلکہ بنیادی مقصد یہ تھا کہ ایک پر امن علاقے میں صالح معاشرہ تشکیل دیا جائے ۔ جس کیلئے ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض قرار پایا تھا کہ وہ اس وطنِ جدید کی تعمیر میں حصّہ لے ۔ یہ یقینی بات تھی کہ اس معاشرے کی تشکیل کے امام قائد اور رہنما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ اب دیکھئے کہ ہمارے پیغمبر نے اس معاشرہ کو کیسے تشکیل دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نئے معاشرے کی تشکیل میں جن بنیادی عوامل کو امتیازی حیثیت دی وہ درجِ ذیل ہیں : 1: مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں’’ مسجدمحض ادائے نماز کیلئے نہیں بلکہ یہ ایک یونیورسٹی تھی جس میں مسلمان اسلامی تعلیمات وہدایات کا درس حاصل کیا کرتے تھے ، اور ایک محفل تھی جس میں مدتوں جاہلی کشاکش ونفرت اور ہاہمی لڑائیوں سے دوچار رہنے والے قبائل کے افراد اب میل محبّت سے مل جل رہے تھے ۔ نیز یہ ایک مرکز تھا جہاں سے اس ننھّی سی ریاست کا سارا نظام چلایاجاتاتھا اور مختلف قسم کی مہمیں بھیجی جاتی تھیں ۔ علاوہ ازیں اس کی حیثیت ایک
Flag Counter