تو فاطمہ کی عمر 12 سال تھی۔ تو پھر آپ خود اندازہ لگائیں کہ اپنے پہلے خاوند سے شادی کے وقت فاطمہ کی کیا عمر ہوگی؟؟!! یقیناً وہ اس وقت 12 سال سے بھی چھوٹی تھیں۔ معلوم ہوا کہ 18 سال سے کم عمر میں نکاح صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص نہ تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف کا عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف کا عمل اس امر کی تائید کرتا ہے کہ 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی ہو سکتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ (وفات:204ھ) فرماتے ہیں: "زوج غیر واحد من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ابنته صغیرة"[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ کرام نے اپنی چھوٹی بیٹیوں کی شادیاں کروائیں۔ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنے والد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ(زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ) قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کرنے گئے ۔ قدامہ بن مظعون بیمار تھے اور ان کے پاس ہی زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو بیٹی کی پیدائش کی خوشخبری سنائی گئی۔ قدامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: زبیر! اس لڑکی کی مجھ سے شادی کرادو۔ سیدنازبیر رضی اللہ عنہ نے کہا : تم چھوٹی لڑکی کا کیا کروگے؟ جبکہ تم بیمار بھی ہو! قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں، اگر زندہ رہا تو زبیر کی بیٹی میری بیوی ہوگی اور اگر فوت ہو گیا تو مجھے یہ بات پسند ہے کہ وہ میری وارث بنے۔ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے، قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ سے اپنی بیٹی کی شادی کرا دی۔[2] علامہ ابن الھمام حنفی کہتے ہیں: ’’قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ نے، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے اس دن شادی کی |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |