Maktaba Wahhabi

182 - 453
20۔ امام طیبی (وفات: 743ھ): مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ والد کے لیے چھوٹی لڑکی کا نکاح کرانا جائز ہے۔ [1] نابالغ لڑکی کا نکاح اور شیعہ علماء مشہور شیعہ عالم سیستانی اپنی کتاب "توضیح المسائل" میں لکھتے ہیں: ’’باپ اور دادا اپنے بالغ لڑکے یا لڑکی (پوتے یا پوتی) یا دیوانے فرزند کا جو دیوانگی کی حالت میں بالغ ہوا ہو نکاح کر سکتے ہیں‘‘۔[2] شیعہ کتب ، الاصول من الکافی، تہذیب الاحکام اور وسائل الشیعۃ میں تو لڑکی سے ہمبستری کی عمر 9 سال مقرر کی گئی ہے۔ یہ روایت ملاحظہ کریں: عن ابی عبداللہ قال: قال:’’اذا تزوج الرجل الجاریۃ و ھی صغیرۃ فلا یدخل بھا حتیٰ یاتی لھا تسع سنین۔‘‘[3] امام جعفر صادق فرماتے ہیں: جب کوئی آدمی کسی چھوٹی لڑکی سے نکاح کرے تو اس کے ساتھ ہمبستر نہ ہو یہاں تک کہ وہ 9 سال کی ہو جائے۔ معلوم ہوا کہ نکاح 9 سال سے پہلے بھی کیا جا سکتا ہے اور ہمبستری 9 سال کے بعد۔ مزید ملاحظہ کریں: تھذیب الاحکام: 7/451، من لا یحضرہ الفقیہ: 3/261، الخصال: ص:391، بحار الانوار: 100/172، تحریر الوسیلۃ: 2/380 اہل تشیع کے آٹھویں امام علی رضا رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ایک چھوٹی لڑکی کا اس کے والد نے نکاح کرایا اور وہ فوت ہو گیا جبکہ لڑکی ابھی چھوٹی ہے اور بعد میں بڑی ہوئی اور اس کا خاوند اس کے ساتھ ہمبستر بھی نہیں ہوا ۔ کیا بڑا ہونے کے بعد اس کے والد کا کرایا گیا نکاح درست ہے یا معاملہ لڑکی
Flag Counter