Maktaba Wahhabi

310 - 453
آزادی کی گنجائش اسلام میں نہیں ہے ۔ اسلام لوگوں سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ اِلٰہ واحد کے سامنے جھکیں ، خود کو اس کے سپرد کردیں کیونکہ وہی ان کا مالک ، خالق اور رازق ہے فرمان باری تعالیٰ ہے : {وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۝۰ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ} [آل عمران: 85] ’’اور جو شخص اسلام (فرمانبرداری) کے سوا کوئی اور دین چاہے تو اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے کتنی قوموں کوشرک کے باعث صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ قوم عاد ، قوم ثمود ، قوم لوط ، قوم شعیب۔ اسلام کا اس حوالے سے ضابطہ واضح ہے ۔وہ کفر اور الحاد کی آزادی نہیں دے سکتا ۔ ہاں اسلام ہر کسی کو اسلامی آداب کے اندر رہتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ اس کاواضح شاہد ہے کہ آپ نے منبر پر خطبہ دیا اور لوگوں کو حقِ مہر میں مبالغہ کرنے سے منع فرمایا، ایک عورت نے آپ سے کہا کہ آپ حق مہر میں مغالبےسے کیوں منع فرما رہے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ {وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ۰ۙ وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَـيْـــًٔـا۰ۭ اَتَاْخُذُوْنَہٗ بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا} [النساء: 20] ’’اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو اور تم نے اسے خواہ ڈھیر سا مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو ۔ کیا تم اس پر بہتان رکھ کر اور صریح گناہ کے مرتکب ہو کر اس سے مال لینا چاہتے ہو؟‘‘ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ’’ أصابت المرأة وأخطأ عمر ‘‘ عورت نے صحیح کہا اور عمر سے غلطی ہوئی ۔ پھر آپ نے دوبارہ خطبہ دیا اور اپنی سابقہ رائے سے رجوع کیا ۔ نامور عالم دیں حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں ’’خلفاء راشدین نے اپنے کو تنقید سے بھی بالاتر نہیں سمجھا اورا ظہارِ رائے پر قدغن نہیں لگائی ۔ وہ پانچوں وقت خود عام لوگوں کی امامت کراتے اور جمعہ وعیدین کے موقعے پر لوگوں سے براہِ راست خطاب فرماتے ۔ یُوں ہر شخص کے لیے ان پر تنقید کرنا اور ان کو روکنا ٹوکنا ممکن اور آسان تھا ۔ جس سے معلوم ہوا کہ حکمرانوں کا عوام کی دسترس سے بالا رہنا یا انہیں اظہارِ رائے سے محروم رکھنا یہ اسلام کے نظامِ خلافت سے مطابقت نہیں رکھتا ‘‘[1]
Flag Counter