آئے ، رخصت کیجئے ۔ بھاری جوڑے بنوائیے ۔ دوبارہ کرایہ دینے آئیے ۔ ادھر کمین لوگ دُھویا لاتے ہیں ۔ اس میں بھی انعام ہر ایک کو دیا جانا ضروری ہے ۔ تقاضا ہورہاہے جس قدر دیجئے تھوڑا ہے ۔ سرکار برسوں خدمت کرتے گزارا ہے ۔ آج خوشی نے منہ دکھایا ہے ۔ سب کچھ دیا مگر ان کا منہ سیدھا نہیں ۔ جب لڑکا نہ ہوا تھا ، پیر شہید کی منتیں مان بیٹھے تھے ۔ اب وہ کیونکر نہ کی جائیں ۔ یاران چوری نہ پیران دغابازی مثل مشہور ہے ۔ سیکڑوں روپیہ منّتوں کے لیے چاہیے ۔ میران کا بکرہ ، پیردستگیر کی گیارہویں ۔ میاں معین کی دیگ ۔ کہاں تک کہیے ۔ مسجدوں میں گھی کے چراغ ۔ درگاہوں پر ہاتھی گھوڑے چڑھاتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں لڑکے کو اگر کوئی گھر سے باہر بھی لے گیا تو آفت آئی ۔ ہیں ہیں نظر لگ جائے گی ۔ دودھ کے بال ہیں ۔ منہ میں دودھ بھرا ہے ۔ کوئی دیکھ نہ لے ، دوچار برس کا ہوگیاہے ۔ پیاری پیاری باتیں کرتاہے ، کھیل تماشے کرتا ہے ، کوئی دیکھ سن نہ پائے یا ماں گود میں چڑھائے ہے ۔ بچہ کے پاؤں نہ دُکھنے لگیں اور کوسوں بھیجا تو بہت دور ہے ۔ ہاں جو بڑے جاہل ہیں ، وہ منزلوں کی راہ طے کرکے درگاہوں میں لے جاکر قبر کے سامنے لڑکے کو رکھ دیتے ہیں اور صد ہا روپیہ چڑھاتے ہیں ۔ درگاہ کے تعویذ گنڈے سونے چاندی میں منڈھواکر اس کے گلے میں ڈالتے ہیں ۔ پھر راہ کی مصیبت جھیلتے ہوئے مرپٹ کے گھر پہنچتے ہیں ۔ اگر کسی وجہ سے درگاہ نہ پہنچنا ہوا تو سمجھتے ہیں کہ ابھی یہ فرض باقی ہے ۔ جب تک وہاں نہ ہو آئے گا ، بچے پر سیکڑوں آفتیں رہیں گی ۔ ہائے بے علمی بھی کیا بری بلا ہے ۔ اگر سمجھ ہوتی تو اپنی کمائی ایسے بے فائدہ کاموں میں کیوں صرف کرتے ۔ ‘‘[1] اسلامی اقدار واطوار پر مبنی معاشرے کی تشکیل عصرِ حاضر میں کیسے ممکن ہے ؟ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ لن يصلح آخر هذه الأمة إلا بما صلح به أولهاـ‘‘ اس امت کے آخر کے لوگوں کی اصلاح بھی اسی چیز سے ہوگی جس سے پہلوں کی اصلاح ہوئی ہے ۔ دور حاضر کے اپنے معاشرے کو ہم اگر شرعی خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |