Maktaba Wahhabi

21 - 453
کی سرپرستی اور محاسبہ خصوصاً خالصتاً کاروباری سوچ کے حامل نام نہاد شہرت اور کمپنی کی مشہوری کیلئے بوٹی مافیا، رٹا اور دوسرے اوچھے حربے اختیار کرنے والے تعلیمی اداروں پر کڑی نظر رکھنی ہو گی اس کیلئے علماء کرام ، باشعور والدین اور سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنے کیلئے میدان عمل میں آنا ہو گا۔ ہم ایک زندہ و پائندہ قوم بننے سے قاصر رہیں گے کیونکہ آج کے فرعون کو کالج کی سوجھ گئی ہے شاید اس نے اکبر مرحوم کا یہ شعر پڑھ لیا ہے … ؎ یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا ۔۔۔ افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی [1] 2: میڈیا: میڈیا کی رسائی اس وقت ہر گھر تک ہے، اور جس نہج پر اس وقت ہمارا میڈیا کام کر رہا ہے اس کی فتنہ پردازی کسی سے مخفی نہیں ۔ لوگوں کی ذہن سازی اور اور فکری ناہمواری کا سبب میڈیا ہی ہے ۔ بچہ ہو یا نوجوان ، خاتون ہو یا مرد چھوٹا ہو یا بڑا سب فلموں ، ڈراموں ، اور میڈیا پر نمودار ہونے والے نام نہاد دانشوروں کے ترانے پڑھتے ہیں ۔ میڈیا ایک صنعت ہے اور صنعتیں مسیحائی نہیں کرتیں ،یہ اس اصول پر کام کرتاہے کہ سب جائز ہے ۔ اگر معاشرے کی بہتری مقصود ہے تو میڈیا کو لگام دینا ضروی ہے ۔ 3 : ادبی کلچر: ہمارا ادبی کلچر بھی زیادہ تر عاشقی ومعشوقی کے سوا نامکمل سمجھا جاتاہے ۔ ناول ، ڈائجسٹ ، روزنامچے سب ہی ایک ڈگر پر چل رہے ہیں ۔ 4 : زبان۔ قوم کی زندگی زبان کے بل بوتے پر ہے ۔ ہماری قوم اس وقت مستعار زبان استعمال کر رہی ہے ۔ انگریزی کی اہمیت کو اتنا اجاگر کیا جاچکاہے ہر فرد بغیر اس کے اپنی زندگی کو نامکمل سمجھتا ہے ۔ ہمیں جہاں عربی زبان کو اہمیت دینی چاہئے تھی وہاں انگریزی کو دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام الناس کا تعلق قرآن وحدیث کے بجائے انگریزی ادب سے جڑا ۔ جس سے ان کی عادا وتقالید ہمارے رگ وریشے میں رچ بس گئیں کیونکہ عربی مثل مشہور ہے کہ ’’كل إناء بما فيه ينضح ‘‘ برتن میں جو ہوتاہے اس سے نکلتا بھی وہی کچھ ہے ۔
Flag Counter