Maktaba Wahhabi

101 - 453
عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ"(حم السجده: 34) ’’ نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، برائی کو بھلائی سے دور کرو (ایسا کروگےتو)پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ، ایسا ہوجائے گاجیسے وہ دلی دوست ہے۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے : "لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا"[1] ’’ اس کا ہم(مسلمانوں) سے تعلق نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت(رحم) نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا ادب واحترام ملحوظ نہیں رکھتا۔ ‘‘ (1)مرد کے لیے حکمت ودانش کی ضرورت دوسرے نمبر پر خاوند کا کردار ہے جب نئی نویلی دلہن ایسے گھر میں آتی ہے جہاں شوہر کے والدین، اس کے بہن بھائی اور بھابھیاں وغیرہ بھی ہوتی ہیں تو پھر مرد کا امتحان شروع ہوجاتاہے۔ اس طرح کے مشترکہ خاندان میں عورتوں(ساس،نندوں وغیرہ) کے ساتھ ٹکڑاؤ کا خطرہ ہر وقت، سرپر لٹکی تلوار کی طرح رہتاہے ، کسی وقت ساس بہو کے درمیان تکرار ہوجاتی ہے تو کبھی نندوں کے ساتھ نوک جھونک یا بھابھیوں یا ان کے بچوں کے ساتھ کوئی معاملہ ، ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مرد کا خصوصی تعلق ہے، گو اس کی اہمیت ونوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن ہر ایک کے ساتھ تعلق کے خصوصی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ ایک عورت اس کی بیوی بن کر اس کے پاس آئی ہے وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں ناز ونعمت میں پلی ہے، وہ ماں باپ کی آنکھوں کا تارا اور ان کے دلوں کا ٹکڑا رہی ہے، اس نئے گھر میں اس کو ماں باپ کی محبت وشفقت کا بدل بلکہ نعم البدل ملنا چاہیے۔ (شریعت کا حکم بھی یہی ہے)۔ اس مرد(خاوند) کی ماں ہے ، جس نے اس کی خاطر ہر طرح کی مشقتیں برداشت کی ہیں ، اس کو پال پوس کر جوان کیا ہے پھر اس کی حسب خواہش اس کی جوانی کی آرزو(شادی کرکے) پوری کی ہے۔ بیوی کے آجانے کے بعد بھی ضروری ہے کہ اس کی طرف سے ماں کی خدمت،حسن سلوک، ادب
Flag Counter