شادی کے اختتام پر مرد حضرات اپنی اپنی خواتین کو لینے کے لیے ہال کے گیٹ پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ماشاء اللہ سب خواتین چونکہ بے پردہ ، ہر طرح کے فیشن سے آراستہ نیم عریاں لباسوںمیں ملبوس اور الٹے سیدھے میک اپ سے اپنے چہروں کو اور پلکوں کو بزعم خویش سجایا بھڑکایا ہوتا ہے تو کیا باہر نکلتے ہوئے یہ عورتیں مردوں کے سامنے سے بلا جھجھک نہیں گزرتی ہیں ؟ اور کیا مرد رنگ ونور کے اس سیلاب سے ، یا حسن وجمال کے اس جلوہ ہائے بے تاب سے یا بکھرتے اور دھنکتے اس قوس قزح سے محظوظ نہیں ہوتے؟ کیا بے حیائی وبے پردگی کے ان مناظر اور مظاہروں کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے؟ اور جن مسلمان کہلانے والے مردوں نے اپنی بیگمات،بیٹیوں اور بہنوں کو اس بے حیائی کا مظہر بننے کی اور ’’بے حیا باش وہرچہ خواہی کن‘‘ کا مصداق بننے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ، کیا وہ اس کے ذمے دار نہیں ہیں؟ اگر وہ واقعی مسلمان ہیں تو کیا اس بے غیرتی کا ان کے پاس کوئی جواز ہے؟ کیا انہوں نے کبھی سوچاہے اسلام کی اس طرح مٹی پلید کرنے پر وہ اللہ کوکیا جواب دیں گے، بارگاہ الٰہی میں کس طرح سرخرو ہوں گے؟ کیا اس جواب سے ان کا چھٹکار ہوجائے گا کہ بیوی یا بیٹی نہیں مانتی تھی؟ یا ہمارے معاشرے کا رواج ہی یہ تھا کہ شادی بیاہ کے موقعے پر شریعت کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا تھا ؟ یا اگر ہم اپنی خواتین کو سادہ لباس اور باپردہ لے جاتے تو لوگ ہمیں دقیانوسی خیال کرتے اور یہ پھبتی کستے۔ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ ، انہیں کچھ نہ کہو کیا اس قسم کے جوابات سے ہماری چھوٹ ہوجائے گی؟ پس چہ باید کرد؟ بہر حال یہ صورت حال نہایت المناک ہے اور اہل دین کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ، یہ کہا جاسکتاہے کہ سب شادیوں میں تو ایسا نہیں ہوتا ، بلاشبہ یہ بات صحیح ہے لیکن بات تو چند افراد یا چند شادیوں کی نہیں بلکہ قوم کی حیثیت مجموعی کی ہے۔ رسم ورواج اور بے حیائی کایہ طوفان اور دینی اقدار وروایات سے یکسر انحراف کا یہ سیلاب اتنا عام اور تیز ہوگیا ہے کہ بڑے بڑے دین دار گھرانے اور خاندان بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں اور دولت اور وسائل کی فراوانی کی وجہ سے ان کے اندر بھی دین کی پابندی کے |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |