(کہ ایسا کرنے سے ناانصافی اور) ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ ۔یعنی تم ان عورتوں سے جو تمہارے لئے حلال ہیں نکاح کرو اس جگہ نکاح کرنے والے کو ولی یا گواہوں کا پابند نہیں کیا گیا۔ مزید ارشاد فرمایا: [ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ ] [النساء: 24] یعنی: تمہارے لئے جائز قرار دیا گیا ہے کہ تم اپنے مال کے ذریعے سے تلاش کرو ، بشرطیکہ تمہارا مقصد نکاح میں لانا ہو محض شہوت رانی ہو۔ نکاح کے تعلق سے شریعت ولی کو چند احکامات کاپابند کرتی ہے ۔ کہ وہ بیٹی کی جائز خواہشات کا احترام کریں اسے سمجھنے کی کوشش کریں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے [الأيم أحق بنفسها من وليها والبكر تستأذن في نفسها وإذنها صماتها][1] یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ثیبہ اپنے نفس کی زیادہ حق دار ہے بنسبت اپنے ولی کے اور باکرہ سے اس کے نفس کے متعلق ( نکاح کی) اجازت لینی چاہیئے اور اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے ۔ مذکورہ روایت کے مفہوم سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ نکاح خواہ کنواری لڑکی کا ہو یابیوہ کا ان کی اجازت، ان کا رضامند ہو نا ضروری ہے۔ طلاق: طلاق کا لغوی معنیٰ جدائیگی ہے جبکہ شرعی اصطلاح میں طلاق کا معنیٰ ہے جب زوجین یہ سمجھے کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو پھر اس کا واحد حل طلاق ہے۔ شوہر نے باری تعالیٰ کے فرامین پر عمل کرتے ہوئے اس سلسلہ میں سورۂ نساء کی آیت[ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ] (النساء:34) یعنی انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو۔ کے تحت اسے نصیحت کرکے گھر میں رہتے ہوئےاس سے بستر الگ کرکے یاکچھ مار پٹائی سے اسے راستہ پر لانے کی کوشش کی ۔ اب اگرمعاملہ اس سے بھی تجاوز کرجائے پھر ارشاد باری تعالیٰ ہے: [وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَھْلِهٖ وَحَكَمًا مِّنْ اَھْلِھَا ۚ اِنْ يُّرِيْدَآ اِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَيْنَهُمَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِــيْمًا خَبِيْرًا 35] [النساء:35] |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |