Maktaba Wahhabi

183 - 453
کےحوالہ کیا جائے گا؟ جواب فرمایا کہ اس کے والد کا کرایا گیا نکاح جائز ہے۔ [1] دور حاضر کے مشہور شیعہ عالم حسن الصفار (پیدائش: 1958) اپنی ویب سائٹ پر لکھتے ہیں: "لیس للزواج سن معین فی الشریعۃ الاسلامیۃ ، فیصح اجراء عقد الزواج حتی للرضیع او الرضیعۃ" [2] ’’شریعت اسلامی میں شادی کے لیے کوئی عمر معین نہیں ہے یہاں تک کہ شیر خوار لڑکے یا لڑکی کی شادی بھی صحیح ہے۔‘‘ دورِ حاضر کے علماء کی رائے دور حاضر کے علماء میں سے شیخ عبدالعزیز بن بازرحمہ اللہ، شیخ احمد محمد شاکررحمہ اللہ، شیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ، شیخ عبدالرحمٰن بن ناصر البراک حفظہ اللہ، شیخ عبدالمحسن بن حمد البدر حفظہ اللہ، الشیخ الدکتور عمر بن سلیمان الاشقر بھی 18 سال سے کم عمر لڑکے اور لڑکی کے نکاح کے قائل ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں: حکم تفتین منع تزویج الفتیات ص: 57 سعودی عرب کی مستقل کمیٹی برائے فتاویٰ نے اپنے ایک فتوی میں چھوٹی عمر کے نکاح کو جائز قرار دیا ہے ۔ کمیٹی سے ایک سائل نے سوال کیا کہ میری عمر 12 سال ہے اور کیا میرے لیے نکاح کرنا جائز ہے؟ جواب تھا کہ تمہارے لیے 12 سال کی عمر میں نکاح کرنا جائز ہے اور ہمیں منع کرنے والی کوئی دلیل معلوم نہیں۔[3] چھوٹی عمر (کم سنی) میں نکاح سے روکنے کے نقصانات جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کم سنی میں نکاح کے نقصانات ہیں انہیں مندرجہ ذیل حقائق کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ 1۔ ایک آدمی دیکھ رہا ہے کہ اس کا بیٹا یا بیٹی اخلاقی اعتبار سے تباہی کی طرف گامزن ہیں اور وہ بالغ بھی
Flag Counter