تیاری رکھتے ہیں ۔ مذکورہ بالا آیت میں جن تینوں اوقات کا ذکر ہے یہ اوقات آرام کے ہیں لھذا عوام الناس کو گھروں کے اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے تاکہ نا پسندیدہ منظر کو نہ دیکھ لیں [1]ا ن اوقات کو اللہ تعالی نے ’’عورات ‘‘ ( ستر )کا نام دیا ہے جو کہ عام ہے اس میں بدن کا پردہ بھی شامل ہے اور گھر کی اشیاء کا بھی پردہ شامل ہے ، اس میں خدام خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، اور وہ بچے جو جوان نہ ہوئے ہوں مگر عورتوں کی پوشیدہ معلومات سے واقف ہوں اور سن بلوغت کو نہ پہنچے ہوں شامل ہیں البتہ غیر مذکورہ اوقات میں ان کا آنا جانا مجبوری اور ہر وقت اجازت مانگنا بھی مشکل امر اور بضرورت آتے جاتے ہیں اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہاں واضح رہے کہ آیت میں جن خادموں کا بیان ہوا ہے وہ غلام ہیں جو مستقل ایک گھر کے افراد کی حیثیت سے مالک کے ساتھ ہوتے ہیں آج کل کے دور میں جو گھر میں ملازم رکھے جاتے ہیں وہ چاہے کسی حیثیت سے ہی کیوں نہ ہوں ، ڈرائیور ، باورچی ،چوکیدار ان سب کو پردے کا لحاظ کرنا چاہئے اور کسی وقت بھی نا محر م عورت یا گھر کی مالکن سے ملنا اور بے تکلفی اختیار کرنے کی اجازت نہیں اور نہ ہی اس کمرے میں داخلے کی جہاں مستورات رہتی ہوں یہ تین اوقات اس قسم کے ملازموں کے لئے نہیں ہیں ۔ خلاصہ اسلام میں اجازت کے آداب بہت واسع اور جامع ہیں صرف گھر میں داخل ہونے کے لئے نہیں بلکہ یہ تمام آداب مجالس اور دیگر مقامات کے لئے بھی موزوں و مفید ہیں چنانچہ ان آداب کے ساتھ ساتھ داخل ہوتے وقت مندرجہ ذیل اہم امور جو کہ کتاب و سنت سے ثابت ہیں ان کا کا خیال رکھنا چاہئے : (1) اجازت لینا ایک عمدہ اخلاق اور عالی ظرف میں سے ہے اس کا اہتمام قرآن و سنت سے ثابت شدہ ہے۔ (2) اجازت لینا مردو خواتین کے لئے یکساں ہے اس میں عزیز و اقارب بھی شامل ہیں ۔ (3) اجازت لینے کے لئے سلام کہنا اور پھراجازت لینا مشروع ہے ۔ (3) اجازت تین دفع سے زیادہ نہیں لینی چاہئے ، اور نہ ملنے پر لوٹ جانا چاہئے ۔ |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |