الا ان یکون اطلق استصحابا لحالھن "[1] ’’اس میں یتیم لڑکی کے بالغ ہونے سے پہلے نکاح کا جواز ہے کیونکہ بلوغت کے بعد اسے یتیم نہیں کہا جاتا مگر ان کی پہلی حالت کے پیش ِنظر بالغ ہوجانے کے بعد بھی یتیم کا اطلاق ہوسکتا ہے‘‘ ۔ تیسری دلیل : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: [وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ][النور: 32] ترجمہ:’’تم میں سے جو مرد وعورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنی نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی، اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے امیر بنا دے گا اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: "ھذا امر بالتزویج و قد ذھب طائفۃ من العلماء الی وجوبہ علی کل من قدر علیہ واحتجوا بظاھر قولہ صلی اللہ علیہ وسلم : یا معشر الشباب من استطاع منکم الباءۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصر و احصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء۔ (بخاری:5066، مسلم:1400)۔۔۔۔۔ الایامی: جمع اَیّم و یقال ذالک للمرأۃ التی لا زوج لھا ولرجل الذی لا زوجۃ لہ، و سواء کان قد تزوج ثم فارق او لم یتزوج و احد منھما، حکاہ الجوھری عن اھل اللغۃ "[2] ’’اس آیت میں نکاح کا حکم ہے ۔ علماء کی ایک جماعت اس بات کی طرف گئی ہے کہ جس کے پاس استطاعت ہے اس پر نکاح واجب ہے ، انہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے : اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جس کو طاقت ہے وہ شادی کرے کیونکہ شادی کرنے سے نظریں جھکی رہتی ہیں اور شرم گاہ محفوظ رہتی ہے اور جس کو نکاح کی |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |