Maktaba Wahhabi

132 - 453
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہارے غلاموں اور ان لڑکوں پر جو ابھی حد بلوغ کو نہ پہنچے ہوں، لازم ہے کہ وہ (دن میں) تین اوقات میں اجازت لے کر گھروں میں داخل ہوا کریں۔ آیت کریمہ میں ’’لِيَسْتَأْذِنْكُمُ‘‘ میں ’’ لام‘‘استعمال ہوا ہے جو کہ’’ لام الامر‘‘ ہے اورفعل امر وجوب پر دلالت کرتا ہے ۔ اجازت لینے کی حکمت و علت اجازت طلب کرنا ایک ایسا بلند ادب ہے جو گھروں کی رازداری (پرائیویسی ) کی حفاظت کرتا ہے اور ایسےمعاملات کی بھی جو کہ عظمت و عفت کے لئے ہیں جنہیں اہل خانہ با پردہ رکھنا چاہتے ہیں استئذان انہی اشیاء و معلومات کی حرمت کو برقرار رکھتا ہے ان میں انسانی جسم سرفہرست ہے اس کے علاوہ بہت سی اشیاء ایسی بھی ہیں جنہیں انسان چھپانا چاہتا ہے جن میں کھانا پینا ، کپڑے وغیرہ اور گھریلو اشیاء بھی شامل ہیں جن پرا چانک نظر پڑے تو ناگواری محسوس ہوتی ہے اور یہ تمام باتیں انسانی ذہن اور نفسیات سے تعلق رکھتی ہیں جن کا اثر انسانی معاشرے اور خاندانی زندگی پر پڑسکتا ہے ،ہم میں سے کتنے ہیں جن کو یہ پسند نہیں کہ کوئی انہیں کمزو ری کی حالت میں روتے ہوئے ،یا غصہ کی حالت میں دیکھ لے ،کتنے لوگوں کو پسند نہیں کہ کوئی انہیں نامناسب لباس میں دیکھے ۔اس طرح آداب استئذان شکوک و شبہات بد زبانیوں اور تہمت واوہام کو روکنے کا مؤثر ذریعہ ہے جو کہ میاں بیوی یا گھر کے دوسرے افراد کی زندگی میں تفریق و بربادی کا باعث بن جاتے ہیں ۔ جو کہ بچوں کی تربیت پر اثر انداز ہوجاتے ہیں اور کبھی ان کی یتیمی کا باعث بھی بن جاتے ہیں ۔ ان تمام باتوں کا ایک ہی محور ہے اور وہ ہے انسان کی نظر ۔ اسلام نے معاشرے پر پڑنے والے انہی دور رس نتائج کا مکمل احاطہ کیا اور اس میں رہنے والوں کی عقلی اور اخلاقی اقدار کومضبوط ایمانی قوت مہیا کی کہ اگر استئذان کی حکمت سمجھ سے بالا ہو تو صرف اتنا مان لینا کہ یہ خالق کائنات اللہ تعالیٰ کا حکم ہے انہیں حکمت کی تلاش سے مستغنی کردیتا ہے اور اس میں خیر ہی ہے، اسےجھٹلانا معاشرے کے لئے فساد و بربادی ہے ۔ ’’استئذان ‘‘ کی علت کا پس منظر یوں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اللہ تعالی کے احکامات
Flag Counter