Maktaba Wahhabi

49 - 453
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد ازواجِ مطہرات میں سے کوئی بھی اپنے ساتھ جہیز لے کر نہیں آئی، اسی طرح رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چار بیٹیوں میں سے کسی ایک بیٹی کو بھی۔ قبل از نبوت اور بعد از نبوت۔جہیز نہیں دیا۔ صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بابت مشہور ہے کہ آپ نے اُن کو تین چار چیزیں بطورِ جہیز دی تھیں۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے، اس کا کوئی تعلق مروّجہ رسم جہیز سے نہیں ہے،جیسا کہ اس کی وضاحت آگےآرہی ہے۔ عربی زبان میں تجہیز(جہیز بنانے) کا مفہوم جہیز،عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ جہاز(سامان) ہے۔قرآن مجید میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے: ﴿ وَ لَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ﴾ [سورۃیوسف:59] ’’جب(یوسف کے کارندوں نے ) برادرانِ یوسف کا(واپسی کا) سامان(سفر) تیار کر دیا۔‘‘ جَهَّزَ(باب تفعیل) کے معنی ہیں: اس نے سامان تیار کیا۔ ہر موقعے کے لیے الگ الگ سامان ہوتا ہے، اس کے حساب سے اس کے ساتھ یہ لفظ لگ کر اپنا مفہوم ادا کرتا ہے۔ جیسے جہاز العروس (دلہن کو تیار کرنا)، جہاز المیت(میت کا سامان تیار کرنا) ،جہاز السفر(سفر کا سامان)،جہاز الغازی(غازی کو سامان اسلحہ وغیرہ دینا)۔ احادیث میں یہ لفظ دو مو قعوں کے لیے استعمال ہوا ہے:ایک غازی کے لیے اس کو میدانِ کا ر زار میں کام آنے والی اشیا(خَود، زرہ، اسلحہ وغیرہ) مہیا کر کے تیار کرنا۔ دوسرا دلہن کو شبِ زفاف کے لیے تیار کر کے یعنی اُس کو عمدہ لباس وغیرہ سے آراستہ کر کے دولہا کے پاس بھیجنا۔ چنانچہ احادیث میں تین خواتین کا ذکر اس ضمن میں ملتا ہے۔ ایک سیدہ صفیہ، دوسرا سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور تیسرا سیدہ فاطمہ الزہرارضی اللہ عنہا کا۔ جنگِ خیبر میں واپسی پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے اُن سے نکاح کر لیا تھا،اس حدیث میں آتا ہے: جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنْ اللَّيْلِ [1]
Flag Counter