اسی مسلّمہ ضابطہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر قوم ، ملک ، نسل اور آبادی نے اپنے معتقدات ، اپنی عادات واعراف ، اور مصالح وقوانین کے تحفظ کیلئے اس آزادی کو ایک دائرہ تک محدود رکھا ہوا ہے ۔ آزادئ کا تطوراتی مفہوم : انسان آ ج سے نہیں بلکہ ہزاروں سالوں سے اس دنیا میں بس رہا ہے، ہر دور میں اس نے اپنی آزادی کیلئے کچھ قاعدے وضع کئے مگر اس کی فلاح اور کامیابی محض اسلام کے دئے گئے ضابطہ آزادی سےہی ممکن ہوپائی ہے ۔ کرہ ارض پر قدیم ترین تہذیبوں میں مصری تہذیب نمایاں ہے ۔ قدیم مصری تہذیب میں آزادی کا جو تصور پایاجاتاتھا وہ بعینہ اپنی اُسی پرانی شکل میں جدید دنیا میں بھی موجود ہے اگر چہ انداز ، کردار ، واطوار بدل گئے ہیں اغراض ومقاصد واہداف وہی پرانے ہیں۔ مصر کی عہد قدیم کی آزادی کچھ ایسی ہوا کرتی تھی کہ محض فرعون کو آزادی تھی! فرعون اکیلا ہی جو چاہتا ، جب چاہتا اور جس کیفیت سے چاہتا کرتا تھا ، ہاں رعایا کو کوئی آزادی نہیں تھی بلکہ وہ وقت کے بادشاہ کے اشارے کے تابع تھے جسے انہوں نے خدائی درجہ دے رکھا تھا ، اللہ تعالیٰ نے ان کی اسی آزادی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: { قَالَ فِرْعَوْنُ مَآ اُرِيْكُمْ اِلَّا مَآ اَرٰى وَمَآ اَہْدِيْكُمْ اِلَّا سَبِيْلَ الرَّشَادِ} [غافر: 29] ’’ فرعون نے کہا ، میں تو تمہیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود دیکھ رہا ہوں اور میں تو تمہیں بھلائی کی راہ ہی بتلا رہا ہوں ‘‘ ۔ یعنی وہ بزعم خود سمجھ رہا تھا کہ میری ہی رائے صحیح ہے باقی سب غلط ۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا ۔ رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : {فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيْدٍ} [هود: 97] ’’ پھر بھی ان لوگوں نے فرعون کے احکام کی پیروی کی اور فرعون کا کوئی حکم درست تھا ہی نہیں ‘‘ ۔ فرعونی تہذیبوں میں فرمانروا ہی سیاہ وسفید کے مالک ہوا کرتے تھے ، اِبلاغ و ترسیل کے تمام ذرائع پر حکومت اور بالا نشیں طبقوں کا مکمل کنٹرول تھا۔ اخبارات اور صحافیوں کے پیروں میں حکومت اور مقتدر طبقے نے پابندیوں کی زنجیر ڈالی ہوئی تھی، وہ کوئی ایسا مواد مشتہر نہیں کرسکتے تھے، جس میں حکومت اور فرماں روائے وقت یا حکومتی اہل کاروں کی پالیسیوں پر جرح و تنقید کی گئی ہو۔ آج کے دور میں آزادیٔ اظہار رائے کے حوالے سے فرعونی تہذیب کا ترجمان کمیونسٹ نظریہٴ |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |