Maktaba Wahhabi

300 - 453
بلیک میل اور بد نام کی جا سکتی ہیں۔ یہ عشقیہ تحریریں ان کے پاؤں کی زنجیریں بن سکتی ہیں۔ ان کو ایسی سولی پر لٹکا سکتی ہیں کہ جو نہ ان کو مر نے دے اور نہ زندہ رہنے دے۔ ایسی تحریریںا و باش لڑ کے اکثر اپنے دوستوں میں مزے سے پڑھ کر سناتے ہیں کہ دیکھو میں نے پانچواں شکار کر لیا ہے۔ اگر ایسی تحریریں منظر عام پر آ جائیں تو لوگ عبرت پکڑ نے کی بجائے ان کو چٹخارے لے لے کر پڑھتے اور ایسے بیہودہ تبصرے کر تے ہیں کہ متاثرہ خاندان کا دل چاہتاہے زمین پھٹ جائے یا آسمان سروں پر آ گرے اور ہم اس میں دب کر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں۔ کچھ لڑکیاں ایسی تحریروں کا عبرتناک انجام جانتی بھی ہو تی ہیں لیکن لکھتے وقت وہ اس شیطانی دھوکے میں رہتی ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا نہ ہو گا۔ اب میں اندرون شہر میں ہونے والے ایک دوسرے واقعہ کا تذکرہ کردوں‘ شاید! آپ سمجھ جائیں ۔۔۔۔چند ماہ قبل کی بات ہے کہ محلے میں جھنڈیاں،قمقمے، شامیانے اور دیگر ڈیکوریشن کا سامان سج چکا ہے۔ گھر کے ایک کمرے میں سمٹی سمٹائی‘ شرماتی ہوئی دلہن شرم سے نظریں جھکائے بیٹھی ہے۔ سہیلیاں ڈھولک بجا رہی ہیں۔ دوسرے دن بارات آنی ہے۔ ہر کوئی مناسب اوربہترین سا تھی ملنے پر مبارکباد دے رہا ہے۔ سب لوگ تیاریوں میں مصروف ہیں کہ اچانک اگلے دن آنے والے دلہا کا والد پریشانی کے عالم میں گھر میں داخل ہو تا ہے۔ سب لوگ یکدم حیران و پریشان اور ششدر و متعجب ہیں کہ بزرگ بے وقت کیوں آ گئے ہیں‘ با رات سے ایک دن پہلے ہی!!۔۔۔۔ ضرور کوئی گڑ بڑ ہے۔ سب اس کو تکریم دیتے ہیں‘ عزت دیتے ہیں‘بیٹھک میں بٹھا کر مٹھائی اور چائے پیش کرتے ہیں لیکن وہ نہیں لیتا اورپریشانی و فکر مندی سے کوئی بات کر نے کے لئے قوت جمع کر رہا ہے۔۔۔۔ لیکن مُٹھّیاںبھینچتے ہوئے۔۔۔۔۔ ہونٹ کاٹتے ہوئے۔۔۔۔ پہلو بدلتے ہوئے ۔۔۔۔وہ یکدم بولتا ہے کہ۔۔۔۔ باقی لوگ کمرہ سے باہر چلے جائیں‘ میں لڑکی کی والدہ اور ماموں سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ سب کے جانے کے بعد وہ غصے سے چیختا ہے کہ ہمیں یہ رشتہ منظور نہیں ۔۔۔ہم کل بارات لے کر نہیں آئیں گے ۔ ۔ ۔ ۔۔ ہماری طرف سے صاف جواب ہے‘ ہم شادی نہیں کر یں گے۔۔۔ اپنی بیٹی کے لیے وہی لڑکا ڈھونڈ یں جس کے ساتھ اس کا معاشقہ تھا ۔۔۔۔بچی کی ماں یہ الفاظ سن کر چکرائی ،گرتے گرتے سنبھلی اور ہاتھ جوڑ کر التجا کرنے لگی کہ ہمارا قصور کیا ہے جو آپ ہمیں رسوا کرنے پہ تلے ہوئے ہیں ؟ ۔۔۔۔لڑ کے کاوالد کہنے لگا: رسوا ہم نہیں بلکہ ہم دونوں خاندانوں کو تمہاری لڑکی کر رہی ہے‘ یہ لو دیکھ لو اپنی آنکھوں سے۔۔۔۔ یہ کہتے ہی اس نے چند خطوط ان کے سامنے پھینک دیے۔۔۔ اٹھا کر پڑھا گیا تو یہ ان کی لاڈلی کے اپنے محبوب کے نام محبت بھرے‘
Flag Counter