مالکہ تھی لیکن جب سے سکول کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے اکیڈمی گئی ہے اور چند ہندوستانی فلمیں دیکھی ہیں‘ اس کے اندر نہ جا نے کیوں غیر محسوس سی عجیب و غریب تبدیلیاں رونما ہوتی چلی گئیں۔ اس کے لکھے گئے خطوط ومکالمات میں سے یہ ایک نارمل اور مہذب خط ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کورے کاغذ کی طرح صاف شفاف دل و دماغ رکھنے والی لڑکی اس طرح بے باک و بے حیاء ہو جاتی ہے کہ اسے اخلاقیات‘ شرم و حیا ء اور اسلامی اقدار کی پامالی ذرہ بھر نظر نہیں آتی۔ جہاں خوف خدا‘ صحیح اسلامی تربیت اور اچھےہم نشینوں کی عدم دستیابی کے فقدان کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے‘ وہاں بڑے محرکات میں سے مخلوط تعلیمی اداروں کا ماحول‘ پرنٹ میڈیا‘ رسائل و جرائد اور اخبارات کی غلط رہنمائی بھی ہے۔۔۔۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا پوری قوم میں تباہی کا زہر پھیلا رہا ہے۔ خاندان اور والدین نے جس بچی کی تربیت 16سال کی لگا تار کوشش اور محنت سے کی ہو تی ہے، ٹی وی کا ڈرامہ اورفلم اس کے اثرات صرف ایک گھنٹہ میں ختم کر دیتے ہیں۔ اس کا عملی مشاہدہ مجھے فیصل آباد میں ہوا‘ جہاں ایک عالم دین کی بیوہ اپنے بیٹے سے ایک عرصہ تک صرف اس لئےناراض رہی کہ وہ گھر میں ٹیلی ویژن کیوں لایا؟ اس نے گھر میں سب سے گفتگو بند کر دی اور کھا نا کھا نا بھی چھوڑ دیا۔ ایک دن ایک اصلاحی موضوع پر بنا یا گیا ڈرامہ نشر ہونے والا تھا کہ اس کے بیٹے نے زبردستی اسے ٹی وی کے سامنے لا کر بٹھا دیا اور کہا کہ اماں جان ! ایک دفعہ جو ہم دکھانے لگے ہیں یہ دیکھ لو‘ پھر جو آپ فیصلہ کریں گی ہم ویسا ہی کریں گے۔ بوڑھی اماں نے وہ خاندانی کہانی پر مشتمل ڈرامہ دیکھا تو انہیں اچھا لگا، اور پھر کیا ہوا۔۔۔۔ ؟تجسس پیدا ہوا۔۔۔۔ اب کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد حال یہ ہے کہ بچے ٹی وی کے سامنے بیٹھیں یا نہ بیٹھیں اماں جی سب سے پہلے وہاں موجود ہوتی ہیں ۔۔۔۔استغفراللہ۔ بالکل اسی طرح آج کل لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کو ہندوصلیبی تہذیب و ثقافت کے تیز اب میں گھلایا جا رہا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ ایسی غیر شرعی اور غیر اخلاقی عشقیہ داستانوں اور کہانیوں وغیرہ کی حوصلہ شکنی کر نے اور ان کی عبرت ناکی اور انجام بد ظاہر کر نے کی بجائے‘ ایسے لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں‘ لوگ جن سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کی راہ عمل متعین کر تے ہیں۔ جب سے ٹی وی کی نشریات شروع ہوئی ہیں آج تک کوئی بتاسکتا ہے کہ کوئی ایسا ڈرامہ پیش کیا گیا ہو کہ جس میں لو سٹوری نہیں تھی‘ یہاں تک کہ تاریخ پر بنائے گئے ڈراموں میں مجاہدین کے ساتھ بھی یہ چیز منسوب کی گئی۔۔۔۔ یقیناً انہی فلموں ڈراموں سے تربیت پانے والی دوشیزائیں خط لکھتے وقت یہ بات ذہن میں نہیں لاتیں کہ یہ خطوط کل ان کے گلے کا پھندا بھی بن سکتے ہیں۔ وہ ان تصاویر و خطوط کے ذریعہ |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |