ترجمہ:’’تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اس کی برائی کا اظہار کرے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اس کو بُرا سمجھے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘ وضاحت:مرد کو اللّٰہ تعالیٰ نے عورتوں پر قوام (حاکم ، نگران، سربراہ) بنایاہے، اس لیے ہر مرد فطری طور پر اپنے گھر کا سربراہ ہے۔ سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کے سارے افراد کو راہِ راست پر رکھے اور اس سے اُن کو منحرف نہ ہونے دے۔ اس خداداد مقام پر فائز مرد کے یہ شایانِ شان نہیں کہ وہ یہ کہے کہ شادی کی رسومات میں بیوی میری بات نہیں مانتی، بچے نہیں مانتے۔ یہ اس کے شیوۂ مردانگی کے بھی خلاف ہے اور یہ عذر بارگاہِ الٰہی میں ناقابل شنوائی بھی۔ علاوہ ازیں دنیاوی معاملات میں کیا کوئی مرد ایسی بے بسی کا مظاہرہ کرتا ہے؟ اگر ہانڈی میں نمک مرچ کم یا زیادہ ہو جائے تو دونوں صو رتوں میں عورت کی شامت آجاتی ہے۔ اس وقت تو عورت کی بے بسی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ مرد کی ناراضی پر چُوں بھی نہیں کرتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین ہی ایسا یتیم ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے اس کے ساتھ جو چاہے، سلوک کر لیں، مردوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مذکورہ حدیث کی روشنی میں ہر مرد سوچ لے کہ منکرات سے یہ سمجھوتہ اس کو ایمان کی کس پستی میں دھکیل رہا ہے۔ أعاذنا اﷲ منہ سیدنا ابن عمر سے مروی ہے، رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ، فَالْأَمِیْر الّذِيْ عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ، وَالرَّجُلُ رَاعِ عَلى أَہْلِ بَیْتِہِ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْہُمْ، وَالْمَرْأةُ رَاعِیَةٌ عَلٰى بَیْتِ بَعْلِھا وَوَلَدِہِ، وَہِیَ مَسْئُوْلَةٌ عَنْہُمْ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلٰى مَالِ سَیِّدِہِ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْہُ، أَلَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رِعِیَّتِہ "[1] ترجمہ:’’خبردار! تم سب کے سب نگران اور ذمے دار ہو اور تم سب سے اپنی اپنی رعیت |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |