امام ابن ماجہ نے اس روایت کو باب ضجاع آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت بیان کیا ہے۔ یعنی ’’آل محمد(محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے)کا بستر۔‘‘ امام ابن ماجہ کی اس تبویب سے بھی واضح ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہاسے متعلقہ روایت میں جہیز کے معنی شب باشی کے سامان یا شب باشی کے لیے تیار کرنا ہیں، نہ کہ مروّجہ سامانِ جہیز کے ۔ احادیث میں ان تین واقعات کے علاوہ (سوائے حدیثِ جہاد من جہز غازيا ... الحديث کے) تجہیز کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے، بالخصوص شادی بیاہ کے مسائل میں اور ان تینوں واقعات میں جس سیاق میں یہ لفظ آیا ہے، اس کا وہی مفہوم ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ اس سے مروّجہ جہیز مراد لینا یکسر بے جواز اور خلافِ واقعہ ہے۔ بنا بریں پورے یقین اور قطعیت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ مروّجہ جہیز کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔ ستم ظریفی کی انتہا اور یہ تو ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ لڑکی والوں سے اپنی پسند اور خواہش کے مطابق جہیز کا مطالبہ کیا جائے حالانکہ لڑکی کے ماں باپ کا یہ احسان کیا کم ہے کہ وہ بچی کو ناز و نعمت میں پال کر اور اسے تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے اللّٰہ کے حکم کی وجہ سے اپنے دل کے ٹکڑے کو دوسروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اس احسان مندی کے بجائے ان سے مطالبات کے ذریعے سے احسان فراموشی کا اظہار کیا جاتا ہے جب کہ اللّٰہ کا حکم احسان کے بدلے احسان کرنے کا ہے : ﴿ ہَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُۚ﴾ [سورۃ الرحمن: 60] نہ کہ محسن کے لیے عرصۂ حیات تنگ کرنے کا۔ یا بھاری بھر کم جہیز نہ لانے پر لڑکی کا جینا دو بھر کردینے کا حتیٰ کہ اس کو خود کشی تک کردینے پر مجبور کردینا۔ علاوہ ازیں اللّٰہ تعالیٰ نے مرد کو قوام(عورت کا محافظ، نگران اور بالا دست) ﴿ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ ﴾[سورۃ النساء:34] بنایا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ عورت کی مالی ضروریات پوری کرتا ہے، مرد اپنے اس مقام و مرتبہ کو فراموش کر کے عورت سے لینے کا مطالبہ کرتا ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |