Maktaba Wahhabi

185 - 453
نتیجہ کیا نکلے گا؟ یورپ اور امریکا کے حالات ہمارے سامنے ہیں، جہاں پر کنواری ماؤں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ان میں بھی ان لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے جو 18 سال سے کم عمر ہیں۔ حرف ِ آخر مذکورہ بالا مباحث سے ثابت ہوا کہ کم سنی کا نکاح قرآن، حدیث، عملِ صحابہ اور اجماع سے ثابت ہے۔ نکاح کا جواز ثابت ہے اور اس کا ہر گز یہ مقصد نہیں ہے کہ ہر صورت میں چھوٹی عمر میں نکاح کرانا ہے۔ صرف اجازت ہے اور تاکیدی حکم نہیں ہے۔ لیکن ایسے نکاح کو حرام اور ناجائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جو چیز قرآن ، حدیث اور عملِ صحابہ سے ثابت ہو وہ ناجائز کیوں کر ہو سکتی ہے؟ موجودہ حالات کے پیشِ نظر کوشش کی جائے کہ اولاد کے بالغ ہونے کے بعد ان کی رائے اور مشورے سے ان کا نکاح کر دیا جائے تاکہ بعد میں رونما ہونے والے فتنوں اور فساد سے بچا جا سکے۔ اگر کسی لڑکی کے والد نے بچپن میں ہی اس کا نکاح کر دیا تھا اوربالغ ہونے کے بعد وہ لڑکی اس رشتہ سے مطمئن نہیں ہے اور وہ اس رشتہ کو قائم رکھنا نہیں چاہتی تو ایسی حالت میں شریعت نے اس لڑکی کو حق دیا ہے کہ وہ اپنا نکاح فسخ کرا دے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کنواری لڑکی آئی اور کہا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کرا دیا ہے لیکن وہ اس مرد کو ناپسند کرتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو اختیار دے دیا (کہ اگر وہ نکاح فسخ کرانا چاہے تو کر سکتی ہے)[1] معلوم ہوا کہ اگر والدین نے لڑکے یا لڑکی کا نکاح ان کے بچپن میں کرا دیا ہو جب وہ ناسمجھ تھے اور بالغ ہونے کے بعد شریعت نے انہیں اختیار دیا ہے کہ اگر راضی ہوں تو وہ بچپن والا نکاح کافی ہے نئے سرے سے نکاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اگر ناخوش ہوں تو لڑکا، لڑکی کو طلاق دے گا اور اگر لڑکی راضی نہیں تو عدالت کے ذریعہ وہ نکاح منسوخ کرا سکتی ہے۔[2] واضح رہے کہ شرعی نقطہ نگاہ سے بچپن کا نکاح درست ہے لیکن رخصتی کا موزون وقت بلوغت ہی ہے ۔ مانتے ہیں کہ اسلام نے بچپن کے نکاح کو جائز قرار دیا ہے لیکن اس کی ہمت افزائی نہیں کی ہے
Flag Counter