{ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا } [الأحزاب: 6] ترجمہ: اور کتاب اللہ کی رو سے مومنین اور مہاجرین کی نسبت، رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ (ترکہ کے) حقدار ہیں ۔ البتہ اگر تم اپنے دوستوں سے کوئی بھلائی کرنا چاہو (تو کرسکتے ہو) کتاب اللہ میں یہی کچھ لکھا ہوا ہے۔ تو انصار ومہاجرین میں باہمی توارث کا حکم ختم کردیا گیا لیکن بھائی چارے کا عہد باقی رہا ۔[1] امام غزالی رحمہ اللہ اس بھائ چارے کے مقصود سے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’ جاہلی عصبیتیں تحلیل ہوجائیں۔ حمیّت وغیرت جو کچھ ہو وہ اسلام کے لیے ہو ۔ نسل ، رنگ اور وطن کے امتیازات مٹ جائیں ۔ بلندی وپستی کا معیار انسانیت وتقویٰ کے علاوہ کچھ اور نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بھائی چارے کو محض کھوکھلے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا تھا بلکہ اسے ایک ایسا نافذ العمل عہد وپیمان قرار دیاتھا جو خون اور مال سے مربوط تھا ۔ یہ خالی خولی سلامی اور مبارکباد نہ تھی کہ زبان پر روانی کے ساتھ جاری رہے مگر نتیجہ کچھ نہ ہو بلکہ اس بھائی چارے کے ساتھ ایثار وغمگساری اور مُوَانَسَت کے جذبات بھی مخلوط تھے اور اسی لیے اُس نے اس نئے معاشرے کو بڑے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کردیا تھا ۔‘‘[2] پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ اس بھائی چارے نے ایسی نادر ونایاب مثالیں چھوڑیں کہ آئندہ نسلوں تک اس کی مثال ملنا مشکل ہوگئی ۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ کرادیا ۔ اس کے بعد جناب سعد رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمٰن بن عوف سے کہا :’’ انصار میں میں سب سے زیادہ مال دار ہوں۔ آپ میرا مال دو حصوں میں بانٹ کر ( آدھا لے لیں ) اور میری دو بیویاں ہیں ۔ آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو مجھے بتادیں میں اُسے طلاق دے دوں ،اور عدت گذرنے کے بعد آپ اس |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |