میں دولہا یا اس کے والد کو دے دیتے ہیں۔ یہ رواج بھی اتنا عام ہے کہ شریک ہونے والے خاندان کا ہر بڑا فرد اور احباب میں سے ہر شخص اس سلامی یا نیوتے کے بغیر شرکت میں سبکی محسوس کرتا ہے اور اسے خواہی نخواہی کچھ نہ کچھ ضرور دینا ہی پڑتا ہے ، علاوہ ازیں نہ دینے پر گو زبان سے اظہار نہ ہو دل میں خفگی ضرور محسوس کی جاتی ہے۔ یہ ہدیہ،تحفہ یا تعاون نہیں ہوتا بلکہ اس کو قرض سمجھا جاتا ہے اور قرض بھی سودی۔ یعنی جتنی رقم دی جاتی ہے، دینے والے کے ہاں جب شادی کی تقریب ہوتی ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اب لینے والا میری دی ہوئی رقم مع اضافہ لوٹائے اور رواج بھی یہی ہے کہ واپسی کے وقت اضافہ کرکے ہی دی جاتی ہے۔ اس رسم کا جب کبھی آغاز ہوا ہوگا ، اس وقت یقینا جذبہ تعاون کے تحت ہی ہوا ہوگا، لیکن اب یہ تعاون کے بجائے متعدد قباحتوں کا باعث ہے۔مثلاً تعاون کی ضرورت ہے یا نہیں ، اب صرف رسم کے طور پر اس کو کیا جاتاہے ، یہی وجہ ہے کہ لکھ پتی اور کروڑ پتی خاندانوں میں بھی اس کا اہتمام ہوتا ہے حالانکہ ان کو اس تعاون کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔ واپسی پر زیادہ دینا اور اس کا واپس کرنا ضروری ہے ، اس طرح یہ ایک قرض کی صورت بن جاتی ہے اور قرض پر زیادہ لینا ہی سودہے۔ اس اعتبار سے یہ باہم تبادلہ سودی طریقہ ہے۔ دعوت قبول کرنے کا حکم ہے لیکن شادی(بارات یا ولیمہ) کی دعوت ایک خالص دعوت نہیں رہتی کیونکہ کچھ نہ کچھ دینا ضروری سمجھا جاتا ہے جب کہ دعوت بے لوث ہوتی ہے اور اسے ہی قبول کرنے کی تاکید ہے ، اس اعتبار سے یہ بارات یا ولیمے کی دعوت بھی، اسلامی دعوت نہیں ہے بلکہ یہ خود غرضی کا یا باری اتارنے یا وصول کرنے کا ایک سلسلہ ہے جو شادی بیاہ کی زیر بحث رسومات ہی کا ایک حصہ ہے۔ بنابریں ضروری ہے کہ دین کا صحیح شعور رکھنے والے سلامی یانیوتے کی اس رسم کا بھی خاتمہ کریں،اس کا بھی کوئی شرعی جواز نہیں ہے البتہ کوئی رشتہ دار غریب ہے اور اسے تعاون کی ضرورت ہے تو اس کے ساتھ ضرور تعاون کیا جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ (1) آپ اگر صاحب حیثیت ہیں تو اس کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے تعاون کردیں نیز سادگی کے ساتھ شادی کرنے کی تلقین کریں۔ |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |