Maktaba Wahhabi

287 - 453
ہوا فیملی ڈاکٹر جو معروف لفظ ہے ہمارے ہاںایسے ہی کسی ان کے فیملی ڈاکٹر نے چیک اپ کے بہانے اس کی بیٹی کو لٹا کر وہ کیا کہ اس کی بیٹی کو اپنی عزت سے ہاتھ دھونا پڑے۔یہ باطل میڈیا ہی آج بناوٹی رشتے بنا کر پیش کرتا ہے جبکہ اسلام نے محرم اور نا محرم ہر رشتے کو بیان کیا اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا۔وہ لڑکی جب اپنے گھر واپس ہوئی تو اس کی حالت دگر گوں تھی اور اس قسم کے بناوٹی انکلوں کے بارے میں اس کے نظریات بدل چکے تھے۔ ہندوستانی کمیٹی کے صدر نے (انوکھی کہانیاں ، ص:24) میںکہا اگر ہندوستان میں چھیڑ چھاڑ ، زنا بالجبر اور اغوا کے واقعات اس کثرت سے پولیس ریکارڈ میں ہیں تو نہ جانے حقیقت میں کتنے ہوں گے اس سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایک روشن خیال انسان جس نے اپنے گھر کا ایک حصہ اپنے دوست کو کرایہ پر دے دیا جبکہ وہ خود کسی اور شہر میں رہا کرتا تھا اور اس کے بیوی بچے اس گھر میں رہا کرتے تھے کچھ دنوں بعد جب وہ واپس آیا تو اس کی بیوی اور دوست کے درمیان تعلقات کچھ اور ہی رخ اختیار کر چکے تھے پھر اس نے برہمی کا اظہار کیا لیکن معاملہ بہت آگے نکل چکا تھا کہ اس کی بیوی اپنا سارا زیور، گھر کے کاغذات ، بینک میں جمع شدہ رقم لے کر اپنے عاشق کے ساتھ فرار ہوگئی اور اپنے بچوں اور پورے خاندان کو ذلت میں چھوڑ گئی ۔ یہ واقعہ ہندوستان کے ایک شہر میں پیش آیا اس مرد کی زبان پر اکثر یہ فقرہ رہا کرتا تھا ’’ آپس میں پردہ نہیں ہوتا‘‘ روزانہ کی بنیاد پر پوری دنیا میں لاکھوں عورتیں خود کشی کرتی ہیں لاکھوں عورتوں کو طلاق دے دی جاتی ہے جس کے پیچھے یہی سارے بنیادی عناصر کارفرما ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر نوال السعداوی ایک لمبے عرصہ تک پردہ نشین خواتین کے رویہ پر معترض تھیں علی الاعلان ترک حجاب کا حکم دینے والی اب کہتی ہیں۔’’لندن کی گلیوں میں عورتوں کو دیکھتی ہوں جوقریب قریب ننگی ہیں وہ تجارتی مال کی طرح اپنے جسموں کی نمائش کر رہی ہیں لباس کا کام قدرتی آب و ہوا سے حفاظت کرنا ہے نہ کہ جنسی ترغیبات کے پیغامات نشر کرنا، اگر ایک عورت انسانی نقطہ نگاہ سے خو د کو دیکھے نہ کہ سامان تجارت کے طور پر تو اس کو اپنے جسم کی نمائش کی چند اں ضرورت نہیں۔(مجلۃ المجتمع شمارہ 932) خون میں غیرت رہی باقی تو سمجھے گا کبھی خوب تھا پردہ نہایت مصلحت کی بات تھی
Flag Counter