Maktaba Wahhabi

375 - 453
سے اپنے ساتھ بیٹھے لوگوں کو ہنسا سکے اور اس بات کی وجہ سے جہنم میں اتنا دور جاگرتاہے جیسا کہ دنیا سے ثریا‘‘ ۔[1] مذکورہ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مزاح کے طور پر جو گفتگو کی جائے، وہ ظرافت ولطافت کے باوصف فی نفسہ صحیح اور درست ہو، خوش طبعی کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا بھی مذموم ہے۔ (3) مزاح میں کسی کا تمسخر اور استہزاء مقصود نہ ہو یہ ایک حرام اور ناجائز عمل ہے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے : {يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى ....}[الحجرات: 11] علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ اس سے مراد لوگوں کو حقیرکمتر سمجھنا ، ان کا مذاق اڑانا ، یہ ایک حرام کام ہے اور منافقین کی صفت ہے ‘‘۔ [2] امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں روایت نقل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ لوگوں کا تمسخر اور ٹھٹھ اڑانے والوں کیلئے جنت کا دروازہ کھولا جائے ۔ ان میں سے ایک کو کہا جائے گا کہ آجاؤ ، جب وہ اپنے غم وکرب اور تکلیف میں مبتلا دروازے پر پہنچے گا جب وہ قریب آئے گا تو دروازہ بند کردیا جائے گا ‘‘[3] کسی کا مذاق اڑانے والے کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ کسی کا مذاق اڑا رہا ہے تو کہیں اللہ تعالیٰ بطور سزا اس پر وہ کیفیت اور صفت مسلط نہ کردے ۔ اور وہ اس مرض میں مبتلا ہوجائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اپنے بھائی کا تمسخر نہ اڑاؤ ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے اور تمہیں کسی آزمائش میں مبتلا کردے ‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا مذاق اڑانے ،مسلمانوں کو تکلیف دینےسے منع فرمایا اور کسی بھی مسلمان کی تحقیر کے سلسلے میں احادیث میں سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
Flag Counter