بے شعوری نقصان دہ ہے جوانی کی عمر ایسی عمر ہے کہ جس میں شعور توآجاتا ہے ،لیکن یہ شعوربدرجہ اتم نہیں ہوتا،جوانی کی عمر میں عجلت اور جذبات کا عنصر غالب ہوتا ہے۔اور جس حد تک یہ عنصر غالب ہوتا ہے اسی حد تک وہ شعور اور فہم و فراست سے دور ہوتا ہے۔یہی وجہ ہےکہ جوان شخص بجائے اس کے کہ مکمل طور پر اپنے شعور پر اعتماد کرے، اسے اپنے بڑوں سے نصیحتیں اور ان سے رابطہ رکھنا چاہئے ۔ جوانی کی عمر میں بے شعوری اور عجلت انتہائی نقصان دہ ہے۔ بعض انصاری نوجوان کہہ بیٹھے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوازن کے مال سے مہاجرین کو سو ،سو اونٹ دئیے ہیں،وہ قریش کو دیتے ہیں اور ہمیں نہیں دیتے۔باوجود اس کہ کے ہماری تلواریں ان کے خونوں سے تر ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مغموم ہوئے اور انصار صحابہ کو جمع کیا اور ان سے پوچھا تو انصار کے بڑی عمر کے سمجھ دار افراد کہنے لگے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ بات بعض نوجوان لڑکوں نے کہہ دی ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار صحابہ سے فرمایا کہ میں نے مال زیادہ دیا ہے ،تو انہیں دیا ہے جو ابھی نیا نیا کفر کے دین کو چھوڑ کر آئے ہیں ،اور تمہارے لئے اس سے بڑھ کر شرف کی بات کیا ہوسکتی ہےکہ لوگ اپنے گھروں میں مال لے کر جائیں اور تم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت لے کر جاؤ۔تمام انصار صحابہ نے کہاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اس پر راضی ہیں۔[1] اندازہ لگائیں وہ صحابہ جن کے لئے اللہ کی رضامندی اور جنت کے اعلان ہوچکے ہیں ،ان میںسے بھی بعض لڑکوں سے اس طرح کی غلطی ہوسکتی ہے،اور وجہ ان کی کم سنی تھی( جسے بہرحال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےدرگزر فرمادیا) اس واقعے کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہمارے معاشرے پر نوجوانوں کے بے شعوری کے کس قدر خطرنا ک اثرات رونما ہوسکتے ہیں۔ظاہر سی بات ہےہم میں تو بالاولیٰ اس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ،بلکہ یہاں ایک حدیث کو بھی بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’هلاک امتي علي يدي غلمة من قريش‘‘[2] یعنی میری امت کی ہلاکت قریش کے چند |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |