Maktaba Wahhabi

425 - 453
بےحیائی کریں (تو نکال دینا چاہیے) اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدوں سے تجاوز کریگا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ (اے طلا ق دینے والے) تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے بعد کوئی (رجعت کی) سبیل پیدا کردے ۔ مزید ارشاد باری تعالیٰ [اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ ] (البقرۃ : 229)یعنی طلاق رجعی دو مرتبہ ہے، یعنی ایک بار طلاق دینے کے بعد رجوع کا اختیار دو مرتبہ ہے، پھر چاہے تو تیسری بار طلاق دے کر اس کو فارغ کردیںیا اس کو طلاق نہ دے اور اپنے نکاح میں رکھے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی عام طور پر ایک مجلس میں تین طلاقیں ایک ساتھ دینے کا رواج نہیں تھا۔ البتہ اگر ایسا واقعہ پیش آیا تو آپ نے تینوں طلاقیں نافذ نہیں کی بلکہ اسے ایک ہی کے حکم میں شمار کیا یا اس پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ جس کی تفصیل کتب احادیث میں دیکھی جاسکتی ہے۔ نوٹ:موجودہ حالات میں اس امر کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہےکہ لوگوں کو طلاق دینے کاصحیح طریقہ بتایا جائے تاکہ آئے دن جو طلاق کے حوالے سے شرعی مسئلہ ایک کھیل بن کر رہے گا ہے اس کا صحیح طور پر نفاذ عمل میں آئے گا۔ خلع: شرعاً فسخ نکاح کی ایک صورت ہے جس میں بیوی کسی معقول وجہ سے شوہر کے ساتھ نبھاہ نہیں کرسکتی اور وہ طلاق چاہتی ہو،تو وہ اپنا حق مہر شوہر کو واپس کرے گی۔نیز اگر شوہر حق مہر کے علاوہ بھی مزید کچھ مطالبہ کرتا ہے تو بیوی وہ بھی دے کر اپنے آپ نکاح کے بندھن سے آزاد کرواسکتی ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ،فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ (البقرۃ:229) یعنی عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس پر دونوں پر گناہ نہیں ۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس جب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے آکر ان الفاظ میں اپنے خاوند سے لینے کی خواہش کا اظہار کیا کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی :مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلاَ دِينٍ، یعنی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے کسی بری عادت یا دینداری کی وجہ سے ناراض نہیں ہوں، لیکن میں حالت
Flag Counter