Maktaba Wahhabi

426 - 630
فیقدم الوصل، والواقع ھنا أن من وصلہ أکثر ممن أرسلہ‘‘ ’’امام بخاری رحمہ اللہ کے اسلوب کے استقرا سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ وہ اس صورت (ارسال اور اتصال) میں کسی کلی قاعدہ پر عمل نہیں کرتے، بلکہ زیادت کا مدار ترجیح پر ہوتا ہے۔ إلّا یہ کہ وہ راویان (ثقاہت، تعداد وغیرہ میں) برابر ہوں تو اس صورت میں موصول روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور یہاں فی الواقع موصول روایت کو بیان کرنے والے راویان کی تعداد مرسل بیان کرنے والوں سے زیادہ ہے۔‘‘ (فتح الباري: ۱۱/ ۵۹۰، تحت حدیث: ۶۷۰۳) 4۔ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: ’’والتحقیق أنھما لیس لھما في تقدیم الوصل عمل مطرد، بل ھو دائر مع القرینۃ، فمھما ترجح بھا اعتمداہ، وإلا فکم حدیث أعرضا عن تصحیحہ للاختلاف في وصلہ وإرسالہ‘‘ ’’ثابت یہ ہوا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کا موصول کو مقدم کرنا کوئی کلی قاعدہ نہیں ہے، بلکہ زیادت قرینہ کے تناظر میں پرکھی جاتی ہے۔ جس وقت اس کے موصول ہونے کا قرینہ راجح قرار پائے تو شیخین اس پر عمل کرتے ہیں۔ ورنہ کتنی ایسی احادیث ہیں جن کے موصول اور مرسل ہونے میں اختلاف ہوا اور ان دونوں نے اس کی تصحیح سے اعراض کیا ہے۔‘‘(فتح الباري: ۱۰/ ۲۰۳، تحت حدیث: ۵۷۳۹) 5۔ حافظ صاحب مزید رقمطراز ہیں: ’’امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ زیادت وغیرہ میں ترجیح کا اعتبار کرتے ہیں،
Flag Counter