Maktaba Wahhabi

427 - 630
ان میں سے کسی سے یہ منقول نہیں کہ زیادت کو مطلق طور پر قبول کیا جائے گا۔‘‘ (نخبۃ الفکر، ص: ۴۷) ملحوظِ خاطر رہے کہ صحیح بخاری کے متون اور اسانید پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا دراستہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ 6۔ حافظ سخاوی کے نزدیک امام بخاری قرائن کے تناظر میں مرسل روایت کو موصول پر ترجیح دیتے ہیں، جیسا کہ انھوں نے امام ابوداود طیالسی کی موصول (زیادۃ الحافظ) روایت کو مرجوح قرار دیا اور مرسل کو اثبت قرار دیا ہے۔(فتح المغیث: ۱/ ۲۰۴) 7۔ دکتور ابوبکر الکافی منہج الإمام البخاری میں زیادۃ الثقہ کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں زیادۃ الثقہ ہمیشہ مقبول نہیں ہوتی اور نہ ہمیشہ قابلِ رد ہوتی ہے۔ قرائن کی بنا پر مقبول اور مردود ہوتی ہے۔‘‘ (منہج الإمام البخاري في تصحیح الأحادیث و تعلیلھا من خلال الجامع الصحیح، ص: ۳۶۲و ۳۵۹، ۳۶۶) 8۔ دکتور عبدالسلام بن محمد بن عمر علّوش رقمطراز ہیں: ’’ہماری سابقہ بحث سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ زیادۃ الثقہ کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ کا ایک قول نہیں ہے، بلکہ وہ ہر مقام پر اپنے اجتہاد سے زیادت پر حکم لگاتے ہیں۔ اور وہ قرائن کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے زیادت کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘(تعلیل العلل لذوی المقل، ص: ۳۳۹) 9۔ شیخ نادر بن السنوسی العمرانی نے بھی اسی موقف کو ترجیح دی ہے۔(قرائن الترجیح في المحفوظ والشاذ: ۱/ ۱۱۹۔ ۱۲۱)
Flag Counter