Maktaba Wahhabi

515 - 630
عمومی طور پر ثقہ راوی کی حدیث کو صحیح اور صدوق راوی کی روایت کو حسن قرار دیا جاتا ہے مگر اس میں موجود مخفی علل تک رسائی حاصل کرنے کی جستجو نہیں کی جاتی یا انھیں لائقِ التفات نہیں سمجھا جاتا، حالانکہ بسا اوقات یہی علتیں صحتِ حدیث کو ایسا متأثر کرتی ہیں کہ وہ کالعدم قرار پاتی ہے اور ایسی ہی مرویات کو ناقدینِ فن باطل، موضوع، منکر، ضعیف جدا، لا أصل لہ وغیرہ جیسی اصطلاحات سے سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ حالاں کہ ایسی مرویات کے راوی ضعف کے ایسے درجے میں نہیں ہوتے کہ ان کی روایات پر اتنی سخت جرح کی جائے۔ اس لیے اس شدید جرح کا سبب ثقات راویانِ حدیث کا کسی حدیث کی سند یا متن کو بربنائے وہم ونسیان غلط بیان کرنا ہے۔ جب معلوم ہوگیا کہ یہ راویِ حدیث کے وہم کا شاخسانہ ہے تو اسے عقلی اور نقلی طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ اس سند یا متن کا وجود ثقہ، صدوق یا ضعیف راوی کے ذہن اور تخیل میں ہوتا ہے۔ فی الواقع کچھ نہیں ہوتا اور جو ایسی روایت ہو اسے بطورِ دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس سے کسی اور روایت کے لیے تقویت بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ یہی صورت امام البانی رحمہ اللہ کی سب سے مضبوط اور اساسی دلیل حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں پائی جاتی ہے کہ اس سند سے اس کا کوئی وجود نہیں۔ راویانِ حدیث کے تصرف نے کبھی تو اسے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی مسند میں داخل کردیا تو کبھی حضرت ابوثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ کی مسند سے باور کرایا اور کبھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مسند میں لے گئے۔ اور کسی نے اسے مسندِ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بتایا۔ الغرض یہ سارا اختلاف امام مکحول الشامی وغیرہ سے روایت کرنے والے
Flag Counter