Maktaba Wahhabi

146 - 242
مِنَ الْاَحَادِیْثِ وَلٰکِنَّہٗ مَذْکُوْرٌ فِی الْکِتَابِ مِنَ التَّوَارِیْخِ))[1] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دوران قرآن کی ترغیب دی اور پھر ایک عورت کے لیے ایسا کیا، بعد میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں دوران قرآن کا رواج ہو گیا۔ سوائے حضرت مروان کے کسی نے اس پر اعتراض نہ کیا۔ پھر خلیفہ ہارون کے زمانہ میں یہ فعل عام ہو گیا۔ جواب:..... یہ اثر دوران قرآن کے جواز کی بوجوہ دلیل نہیں ہو سکتا۔ اولاً:..... خود علامہ سمر قندی نے لکھا ہے کہ یہ اثر حدیث کی کسی مشہور کتاب میں نہیں ۔ ثانیًا:..... یہ اثر ضعیف ہے کیونکہ اس اثرکا ایک راوی عیاش بن سفیان مجہول راوی ہے۔ ثالثًا:..... یہ اثر منقطع ہے کیونکہ فقیہ سمر قندی کی وفات ۳۹۳ھ اور ابن علیہ کی وفات ۱۹۴ھ میں ۔[2] گویا فقیہ سمر قندی اور ابن علیہ کے درمیان ۱۸۹ سال کا طویل فاصلہ ہے جو اس اثر کے منقطع ہونے کی بہت بڑی شہادت ہے۔ رابعًا:..... دراصل معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ روایت کسی رافضی کی خود ساختہ ہے کیونکہ اس اثر میں ایک طرف حضرت مروان بن حکم رضی اللہ عنہ کو خلیفہ وقت کا گستاخ ظاہر کیا گیا ہے اور دوسری طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفائے ثلاثہ کے متعلق یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کی گئی ہے کہ وہ نماز روزہ اور دوسری فرائض دینیہ میں سہل انگار ہو گئے تھے۔ جب ہی انہیں یہ حیلہ اسقاط (دوران قرآن) تراشنے کی ضرورت پیش آئی علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پورا قرآن مجید دفتین میں کتابی صورت میں یکجا موجود تھا تو ’’مَا لِیَ لَا اَعْبُدُ‘‘ سے لے کر ’’عَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَ‘‘ تک کے حصے کومخصوص کرنے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ دوسری روایت:..... ((قَالَ الْمُوَرِّخُ صَاحِبُ الْفَتُوْحِ اَخْبَرَنَااَبُوْ عَاصِمٍ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ اَبِیْ
Flag Counter