Maktaba Wahhabi

189 - 242
پوری کرنے کے لیے جنت علیا میں دو حورائیں مقرر کر دی گئی تھیں ۔ علاوہ ازیں صحیح روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے جگر گوشہ ابراہیم رضی اللہ عنہ کا جنازہ بھی نہیں پڑھا تھا جو کہ مسنون طریقہ تھا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ((قَالَتْ مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ بْنُ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَ ہُوَ ابْنُ ثَمَانِیَّۃَ عَشَرَ شَہْرًا فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَ قَالَ الشَّارِحُ الْاِمَامُ شَمْسُ الْحَقِّ وَ قَدْ صَحَّحَہُ ابْنُ حَزْمٍ))[1] اس روایت سے ثابت ہوا کہ جناب ابراہیم بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۱۸ ماہ کی عمر میں فوت ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جنازہ نہیں پڑھا ایسی صورت حال میں ان کو ثواب کی کیا ضرورت تھی، البتہ تیجا ساتا وغیرہ رسمیں اگر جائز ہوتیں تو سید الشہداء سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے شہداء اور طبعی موت مرنے والے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان رسوم کا اہتمام ضرور فرماتے، حالانکہ امر واقعی یہ ہے کہ زمانہ سلف صالحین میں ان رسوم کا نشان تک موجود نہیں تھا اور ہمارے سلف ان جیسے غیر ثابت کاموں سے سخت متنفر تھے۔ یہ نئے امور سوجھے تو صدیوں کے بعد سوجھے۔ ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں : تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے تو شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد دوسرا شبہ:..... مولوی احمد یار گجراتی اور مولوی عبدالسمیع صاحب کہتے ہیں کہ فقہاء نے تیجا ساتا اس لیے منع کیا ہے کہ یہ کھانا مہمانوں اور رشتہ داروں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگر کھانا صرف فقراء کے لیے تیار کیا جائے تو اچھا ہے منع نہیں ۔ جواب 1:..... یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کیونکہ فقہاء حنفیہ نے اس کھانے کو مکروہ لکھا ہے
Flag Counter