’’1۔ تب یُوسف کے بیٹے منسّی کی اَولاد کے گھرانوں میں سے صلافحاد بِن حِفر بِن جِلعاد بِن مکِیر بِن منسّی کی بیٹِیاں جِن کے نام مَحلاہ اور نُوعاہ اور حُجلاہ اور مِلکاہ اور تِرضاہ ہیں پاس آکر۔ 2۔خَیمۂِ اِجتماع کے دروازہ پر مُوسیٰ اور الیِعزر کاہِن اور امِیروں اور سب جماعت کے سامنے کھڑی ہُوئِیں اور کہنے لگِیں کہ۔ 3۔ہمارا باپ بیابان میں مَرا پر وہ اُن لوگوں میں شامِل نہ تھا جِنہوں نے قورَح کے فرِیق سے مِل کر خُداوند کے خِلاف سر اُٹھایا تھا بلکہ وہ اپنے گُناہ میں مَرا اور اُس کے کوئی بیٹا نہ تھا۔ 4۔سو بیٹا نہ ہونے کے سبب سے ہمارے باپ کا نام اُس کے گھرانے سے کیوں مِٹنے پائے؟ اِس لِئے ہم کو بھی ہمارے باپ کے بھائِیوں کے ساتھ حِصّہ دو۔ 5۔مُوسیٰ اُن کے مُعاملہ کو خُداوند کے حضُور لے گیا۔ 6۔خُداوند نے مُوسیٰ سے کہا۔ 7۔صلافحاد کی بیٹِیاں ٹِھیک کہتی ہیں۔ تُو اُن کو اُن کے باپ کے بھائِیوں کے ساتھ ضرُور ہی مِیراث کا حِصّہ دینا یعنی اُن کو اُن کے باپ کی مِیراث مِلے۔ 8۔اور بنی اِسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی شخص مَر جائے اور اُس کا کوئی بیٹا نہ ہو تو اُس کی مِیراث اُس کی بیٹی کو دینا۔ 9۔اگر اُس کی کوئی بیٹی بھی نہ ہو تو اُس کے بھائِیوں کو اُس کی مِیراث دینا* اگر اُس کے بھائی بھی نہ ہوں تو تُم اُس کی مِیراث اُس کے باپ کے بھائِیوں کو دینا + اگر اُس کے باپ کا بھی کوئی بھائی نہ ہو تو جو شخص اُس کے گھرانے میں اُس کا سب سے قرِیبی رِشتہ دار ہو اُسے اُس کی مِیراث دینا ۔ وہ اُس کا وارِث ہو گا اور یہ حُکم بنی اِسرائیل کے لِئے جَیسا خُداوند نے مُوسیٰ کو فرمایاواجِبی فرض ہو گا۔‘ ‘ [1] ان فقرات میں جو معاملہ واضح ہے، وہ یہ ہے کہ صلافحاد کی بیٹیوں نے اپنا حصہ طلب کرتے وقت فقرہ نمبر ۵ میں یہ کہا کہ ’’ سو بیٹا نہ ہونے کے سبب سے ہمارے باپ کا نام اُس کے گھرانے سے کیوں مِٹنے پائے؟ ‘‘ جس سے مفہوم واضح ہے کہ اگر بیٹا ہوتو ان بیٹیوں کو کچھ نہیں ملے گا!! فافھم و تدبر گویا کہ عورت کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے،اور پھر یہودیت کی کتاب تالمود کے مطابق ،یہودی اللہ کا جزء |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |