Maktaba Wahhabi

399 - 453
ہیں پھر ان کے بعد نیک لوگوں پر ،اور پھر اس کے بعد جو نیک لوگ ہوں۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج پر گئے اس رات سیدنا موسی علیہ السلام ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر رو پڑے۔ان سے پوچھا گیا کہ رونے کی وجہ کیا ہے؟ ان کا جواب تھا کہ ایک نوجوان جو میرے بعد نبی بنا ہے اور مجھ سے زیادہ اس کی امت جنت میں جائے گی۔[1] تنبیہ : سیدنا موسی علیہ السلام کا یہ رونا اور مذکورہ کلمات کہنا حسد کے طور پر نہیں تھے،بلکہ یہ اظہار افسوس کے طور پر تھا کہ وہ کثرت ِامت نہ ہونے کی وجہ سے اجر ِکثیر سے محروم ہوگئے۔حسد ،کسی نبی سے اور پھر اس عالم میں نہیں ہوسکتا۔ اس حدیثِ معراج سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جوانی کی عمر میں نبوت جیسی اہم ذمہ داری کا ملنا ثابت ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ صحیح بخاری میں ہے کہ ہجرت کے وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان ہوا کہ ’’شاب لا یعرف‘‘ [2]یعنی ایسے نوجوان کہ لوگ انہیں پہچانتے نہیں تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی آپ کی عمر ۴۰سال تھی ،جوکہ جوانی کی عمر ہے،اور اس عمر کے جوانی کی عمر ہونے کے ثبوت میں قرآنی نص موجود ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ ’’ وَبَلَـغَ اَرْبَعِيْنَ سَـنَةً‘‘ (الاحقاف:15) یہ ایسی عمر ہے کہ انسان کی جوانی بھی برقرار رہتی ہے اور اسے پورا شعور اور فہم ہوتا ہےاور اپنا بڑھاپا بھی اسے قریب آتا دکھائی دیتا ہے۔تو یہ ہر لحاظ سے اہم عمر ہے اس لئے اسی عمر میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا کی گئی۔ نبوت ایک اہم ذمہ داری ہے اسی لئے ایسی ہی عمر کا انتخاب کیا گیا کہ جس عمر میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم مکمل طور مختلف قسم کی ابتلاءات کا سامنا کرسکیں۔لہٰذا یہی اصل عمر ہے دعوت دین کی کہ جس میں امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے سب سے اعلیٰ درجے (ہاتھ سے روکنا) پر بھی عمل کرسکتا ہے اور زبان کے ذریعے بھی ۔
Flag Counter