اور اپنے فقر سے پہلے اپنی تونگری کو
اور اپنی مشغولیت سے پہلے اپنی فراغت کو
اور اپنی موت سے پہلے اپنی زندگی کو]۔
۴: امام بخاری نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، کہ بلاشبہ انہوں نے فرمایا:
’’اِرْتَحَلَتِ الدُّنْیَا مُدْبِرَۃً، وَ ارْتَحَلَتِ الْآخِرَۃُ مُقْبِلَۃً، وَ لِکُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا بَنُوْنٌ، فَکُوْنُوْا مِنْ أَبْنَائِ الْآخِرَۃِ، وَ لَا تَکُوْنُوْا مِنْ أَبْنَائِ الدُّنْیَا، فَإِنَّ الْیَوْمَ عَمَلٌ وَّ لَا حِسَابَ، وَ غَدًا حِسَابٌ وَ لَا عَمَلَ‘‘۔[1]
[’’دنیا مُنہ موڑ کر جا رہی ہے اور آخرت اپنا رخ (ہماری طرف) متوجہ کر کے آ رہی ہے۔ دونوں میں سے ہر ایک بیٹے ہیں، سو تم آخرت کے بیٹے بنو، دنیا کے بیٹوں میں شامل نہ ہو جاؤ، کیونکہ آج (وقتِ) عمل ہے اور (آخری) حساب نہیں اور کل حساب ہے اور (فرصتِ) عمل نہیں‘‘]۔
۵: امام بخاری نے اشعار کی صورت میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
اِغْتَنِمْ فِيْ الْفَرَاغِ فَضَلَ رُکُوْعِ
فَعَسٰی أَنْ یَّکُوْنَ مَوْتُکَ بَغْتَۃً
کَمْ صَحِیْحٌ رَأَیْتُ مِنْ غَیْرِ سُقْم
ذَھَبَتْ نَفْسُہُ الصَّحِیْحَۃُ فَلْتَۃً[2]
[فراغت میں رکوع کی فضیلت (کے پانے) کو غنیمت جانو، کیونکہ شاید کہ تمہاری موت یکایک ہو جائے۔
|