Maktaba Wahhabi

190 - 505
اسی طرح دعا مصیبت کے ردّ کرنے اور رحمت کے حصول کا سبب ہے۔ جیسے ڈھال تیر کو روکتی ہے، تو دونوں میں مقابلہ ہوتا ہے، اسی طرح دعا اور مصیبت باہمی معرکہ آرائی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے اعتراف کرنے کی یہ شرط نہیں، کہ ہتھیار نہ اٹھایا جائے، اللہ تعالیٰ نے (تو خود) فرمایا ہے: {خُذُوْا حِذْرَکُمْ} [ترجمہ: ………] (اور نہ ہی تقدیر الٰہی کے اعتراف کے لیے یہ شرط ہے، کہ) بیج پھیلانے کے بعد زمین کو پانی نہ دیا جائے اور کہا جائے: [اگر پودے کا نکلنا تقدیر میں پہلے سے ہوا، تو بیج سے پودا نکل آئے گا اور اگر ایسے (تقدیر میں) نہیں، تو (پودا) نہیں نکلے گا۔ [تقدیر] [اندازے] سے ہے، جس نے خیر کو مقدَّر کیا ہے، اس نے (ہی) اسے دُور کرنے کے لیے سبب کو مقدَّر بنایا۔ اہلِ بصیرت کے لیے ان باتوں میں کوئی تعارض نہیں۔ ii: امام ابن قیم نے بھی اسی سوال کو اٹھایا ہے اور خود ہی اس کا جواب قلم بند کیا ہے، وہ تحریر کرتے ہیں: إِنَّ الْمَقْدُوْرَ قُدِّرَ بِأَسْبَابٍ، وَ مِنْ أَسْبَابِہِ الدُّعَائُ، فَلَمْ یُقَدَّرْ مُجَرَّدًا عَنْ سَبَبِہٖ، وَلٰکِنْ قُدِّرَ بِسَبَبِہٖ۔ فَمَتٰی أَتَی الْعَبْدُ بِالسَّبَبِ وَقَعَ الْمَقْدُوْرُ، وَمَتٰی لَمْ یَأْتِ بِالسَّبَبِ اِنْتَفَی الْمَقْدُوْرُ، وَھٰذَا کَمَا قُدِّرَ الشَّبَعُ وَالرَّيُّ بِالْأَکْلِ وَالشُّرْبِ، وَقُدِّرَ الْوَلَدُ بِالْوَطْئِ، وَقُدِّرَ حُصُوْلُ الزَّرْعِ بِالْبَذْرِ، وَقُدِّرَ خُرُوْجُ نَفْسِ الْحَیَوَانِ بِذَبْحِہٖ، وَکَذٰلِکَ قُدِّرَ دُخُوْلُ الْجَنَّۃِ بِالْأَعْمَالِ، وَدُخُوْلُ النَّارِ بِالْأَعْمَالِ۔ وَحِیْنَئِذٍ فَالدُّعَآئُ مِنْ أَقْوَی الْأَسْبَابِ، فَإِذَا قُدِّرَ وُقُوْعُ الْمَدْعُوُّ بِہٖ بِالدُّعَآئِ لَمْ یَصِحَّ أَنْ یُقَالَ: [لَا فَائِدَۃَ فِيْ الدُّعَائِ] کَمَا لَا یُقَالَ:
Flag Counter