Maktaba Wahhabi

211 - 505
یَقِیْنُہُمْ عِنْدَ مَشَاہَدِتِہِمْ لَہٗ حَسْبُمَا أُخْبِرَ بِہٖ، وَ لِیَعْلَمُوْٓا أَنَّہٗ شَيْئٌ یَسِیْرٌ، لَہٗ عَاقِبَۃٌ حَمِیْدَۃٌ۔[1] اللہ تعالی نے ابتلاء کے وقوع سے پیشتر اس کے آنے کی خبر دی، تاکہ وہ اس کے لیے اپنی جانوں کو تیار کر لیں اور بیان کردہ خبر کے مطابق اسے دیکھنے پر ان کے یقین میں اضافہ ہو اور تاکہ وہ سمجھ لیں، کہ وہ (یعنی ابتلا کا آنا) آسان (یعنی معمول کی) بات ہے اور انجام قابلِ تعریف ہے۔ iv: سیّد محمد رشید رضا نے قلم بند کیا ہے: ’’أَيْ : وَلَنَمْتَحِنَّکُمْ بِبَعْضِ ضُرُوْبِ الْخَوْفِ مِنَ الْأَعْدَآئِ وَ غَیْرِہٖ مِنَ الْمَصَآئِبِ الْبَشْرِیَّۃِ الْمُعْتَادَۃِ فِيْ الْمَعَایِشِ۔ وَ أَکَّدَ ہٰذَا بِصِیْغَۃِ الْقَسْمِ لِتَوْطِیْنِ الْأَنْفُسِ عَلَیْہِ۔‘‘[2] ’’یعنی دشمنوں کے خوف کی بعض شکلوں اور معیشت میں معمول کی انسانی مصیبتوں وغیرہ کے ساتھ ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے اور اس (خبر) کی تاکید، قسم کے صیغہ کے ساتھ فرمائی، تاکہ نفوس اس کے لیے تیار ہو جائیں۔‘‘ ب: ارشادِ باری تعالیٰ: {لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ}[3] [یقینا تم اپنے مالوں اور جانوں میں ضرور آزمائش میں ڈالے جاؤ گے]۔ اس آیت کی تفسیر میں بھی حضراتِ مفسرین نے ابتلاء کے واقع ہونے سے پیشتر اس کی خبر دینے کی حکمت بیان فرمائی ہے۔ ذیل میں ان میں سے تین کے اقوال ملاحظہ فرمائیے: i: علامہ زمخشری رقم طراز ہیں:
Flag Counter