Maktaba Wahhabi

306 - 505
’’فَإِنْ قُلْتَ: فَبِمَاذَا تُنَالُ دَرَجَۃَ الصَّبْرِ فِيْ الْمَصَائِبِ، وَلَیْسَ الْأَمْرُ إِلٰی اخْتِیَارِہٖ؟ فَہُوَ مُضْطَرٌّ شَآئَ أَمْ أَبٰی، فَإِنْ کَانَ الْمُرَادُ بِہٖ أَنْ لَّا تَکُوْنَ فِيْ نَفْسِہٖ کَرَاھِیَّۃَ الْمُصِیْبَۃِ، فَذٰلِکَ غَیْرُ دَاخِلٍ فِيْ اِخْتِیَارٍ۔‘‘ [’’پس اگر تم کہو: ’’مصیبتوں میں صبر کا درجہ کیسے پایا جا سکتا ہے، جب کہ وہ ہمارے دائرۂ اختیار میں ہی نہیں؟ وہ چاہنے یا انکار کرنے (ہر دو صورتوں) میں، مجبور ہے۔ اگر مراد یہ ہے، کہ اس کے نفس میں مصیبت کے لیے ناپسندیدگی نہ ہو، تو وہ (بات بھی) اختیار میں نہیں۔‘‘ علامہ رحمہ اللہ خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’فَاعْلَمْ أَنَّہٗ إِنَّمَا یَخْرُجُ عَنْ مُّقَامِ الصَّابِرِیْنَ بِالْجَزَعِ، وَشَقِّ الْجُیُوْبِ، وَضَرْبِ الْخُدُوْدِ، وَالْمُبَالَغَۃِ فِيْ الشِّکْوٰی، وَإِظْہَارِ الْکَآبَۃِ، وَتَغْیِیْرِ الْعَادَۃِ فِيْ الْمَلْبَسِ وَالْمَفْرَشِ وَالْمَطْعَمِ، وَھٰذِہِ الْأُمُوْرُ دَاخِلَۃٌ تَحْتَ إِخْتِیَارِہٖ، فَیَنْبَغِیْ أَنْ یَجْتَنِبَ جَمِیْعَھَا، وَیَظْہَرَ الرِّضَا بِقَضَائِ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَیَبْقٰی مُسْتَمِرًّا عَلٰی عَادَتِہٖ، وَیَعْتَقِدَ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَتْ وَدِیْعَۃً ، فَاسْتُرْجِعَتْ کَمَا رُوِيَ عَنِ الرُّمَیْصَآئِ أُمِّ سُلَیْمٍ رَحِمَہَا اللّٰہُ۔‘‘[1] ’’پس سمجھ لیجیے، کہ بلاشبہ وہ جزع فزع کرنے، گریبانوں کے چاک کرنے، رخساروں کے پیٹنے، بہت زیادہ شکوہ کرنے، غم کے اظہار اور لباس، بستر اور کھانے میں تبدیلی کرنے سے صبر کرنے والوں کے مرتبہ سے خارج ہوتا ہے اور ان باتوں کا کرنا یا نہ کرنا، اس کے اختیار میں ہے۔ اس کے لیے مناسب ہے، کہ ان سب (باتوں) سے
Flag Counter