Maktaba Wahhabi

475 - 505
کی سنگین خرابی کو ایک پُر از فصاحت بہت ہی مختصر بات سے بیان فرما دیا۔ ارشاد فرمایا: {بَلْ ہِیَ فِتْنَۃٌ} (ترجمہ: بلکہ وہ تو آزمائش ہے)۔ یعنی انہوں نے اُس کافر کو جو دیا ہے، وہ آزمائش (کے لیے) ہے، کیونکہ اُس کے حاصل ہونے پر شکر کرنا واجب ہوتا ہے اور نہ ملنے پر صبر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَّلٰـکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ} (ترجمہ: اور لیکن اُن کی اکثریت نہیں جانتی)۔ مراد یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کا عطا فرمانا، صرف امتحان کی غرض سے تھا۔[1] اس کے بعد علامہ رحمہ اللہ نے کچھ سوالات اٹھا کر خود ہی ان کے جوابات دئیے ہیں۔ انہی میں سے دو درجِ ذیل ہیں: ا: سوال: [اَلتَّخْوِیْلُ] سے کیا مراد ہے؟ جواب: اس سے مراد یہ ہے، کہ یعنی ہم ازراہِ نوازش اُسے عطا کرتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے، کہ ہماری عطا کردہ چیز کا لینا اُس کا حق تھا، جو اُس نے حاصل کی۔ ب: سوال: ارشادِ تعالیٰ: {إِنَّمَآ أُوْتِیتُہُ عَلٰی عِلْمٍ} سے کیا مراد ہے؟ جواب: علامہ رحمہ اللہ نے اس کے معانی کے متعلق درجِ ذیل تین احتمالات ذکر کیے ہیں: i: مجھے یہ دیا گیا ہے، کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کے علم میں اُس کا حق دار تھا۔ ii: مجھے یہ دیا گیا ہے، کیونکہ مجھے علم تھا، کہ میں اسے لینے کا حق دار ہوں۔ iii: مجھے یہ میرے علم کی بنا پر دیا گیا ہے، اسی لیے تو میں اُسے حاصل کر پایا۔ مثال کے طور پر خود اپنا علاج کرنے والا مریض کہے: [مجھے علاج کی کیفیت کا علم تھا، اسی لیے میں صحت یاب ہوا۔]
Flag Counter