Maktaba Wahhabi

118 - 250
ہے، کیونکہ اس سے بلادلیل مطلق کی تقیید ہوتی ہے۔ [1] دوسرا قاعدہ ’’ اذا ثبت دليل المقيد وجب ان يحمل عليه المطلق عند توافر الشروط في ذالك‘‘ [2] جب مطلق کو مقید پر محمول کرنے کی شرط پوری ہو اور تقیید کی دلیل بھی پایہ تکمیل کو پہنچ جائے تو مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہوتا ہے۔ مثال نمبر 1: قرآن مجید میں تقسیم وراثت کا کئی مقامات پر مطلقاً ذکر ہے، ارشاد ہے: ﴿ يُوصِيكُمُ اللّٰه فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ﴾ (النساء:11) ’’اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں ان کا دو تہائی۔‘‘ جبکہ بعض مقامات پر تقسیمِ وراثت کو تنفیذِ وصیت اور ادائے قرض کے ساتھ مقید کیا گیا ہے: ﴿ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ﴾ ’’(اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی)‘‘ ﴿ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ﴾ ’’(اور یہ تقسیم) وصیت کو پورا کرنے اور ادائیگی قرض کے بعد ہو جبکہ وہ (وصیت میں) کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔‘‘
Flag Counter