Maktaba Wahhabi

74 - 250
معلقات سبع اور دواوین جاہلیت سے استفادہ بجا اور مستحسن، لیکن ان سے اخذ کردہ نتائج بہرحال ہم ’’اعاجم‘‘ کے ہی ہیں، اپنے ہم عصر دوسرے ’’اعاجم‘‘ کے مقابلے میں یہ حجت ہوں تو ہوں، لیکن برصغیر کے اعاجم کی یہ لغوی تحقیقات اگر آثار صحابہ کے خلاف پڑیں تو اسے ’’فتنہ عجم‘‘ اور ’’ظن و دہم‘‘ ہی قرار دیا جائے گا۔ (11) منہج تفسیر بالمأثور کی علمی اہمیت قرآن مجید اپنے آپ میں محکم ہے اور بے انتہاء واضح، مگر پھر بھی اس کی تفسیر و توضیح ایک باقاعدہ علم ہے، اس کی ایک تاریخ ہے اور ایک شاندار تراث۔ برصغیر کا کوئی بھی مفسر وہ ’’پہلا‘‘ ہی شخص نہیں ہو سکتا جو قرآن کو سمجھنے چلا ہو، اگر کوئی شخص علم تفسیر کی اساس و تراث سے بالکل منقطع ہو کر کوئی تفسیر متعارف کرانا چاہتا ہے، تو اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص علم حساب (Mathematics)، علم جغرافیہ، کیمسٹری، فزکس، بائیولوجی وغیرہ کی اب تک کی تحقیقات اور دریافت سے منقطع ہو کر ازسرِنو ان علوم پر قلم اٹھانا چاہتا ہو۔ یوں تو یہ کائنات بھی اللہ کی کھلی کتاب ہے، ہر کوئی اسے پڑھ بھی سکتا ہے اور اس سے فوائد بھی کشید کر سکتا ہے، کسی پر پابندی نہیں۔ واقعاتی و مادی اور تجرباتی انداز میں اس کائنات کا مطالعہ ’’سائنس‘‘ کہلاتا ہے۔ اب سائنس کائنات کے متعلق کیے گئے انسانی تجربات و مشاہدات کی ایک مدلل تاریخ رکھتی ہے اور ایک باقاعدہ علم، اب کیا اس کا علم کچھ مخصوص حوالہ جات اور مصادر سے اخذ کیا جانا ضروری نہیں؟ خود تجربے اور مشاہدے کے کچھ خاص اور متعین اصول و ضوابط نہیں؟ کیا ہر شخص سائنس کی وادی میں آ کر اپنا ’’نیا تجربہ‘‘ کرے گا اور ’’نیا پہیہ ایجاد‘‘ کرے گا یا ’’پہیے‘‘ کی بابت پہلے سے جاری و ساری عمل کو لے کر آگے بڑھے گا؟ سائنس کی بابت کیا کسی تاریخی تسلسل کا حصہ بننا ہوتا ہے یا اس سے الگ تھلگ رہ کر ہی کائنات کے حقائق کی ’’تشکیل‘‘ کرنا ہوتی ہے؟ کائنات تو وہی ہے جو پہلے تھی، مگر اس کا مطالعہ ایک مسلسل تاریخی عمل ہے اور اب اس کے کچھ منضبط اصول ہیں اور متعین مراجع، جن سے منقطع رہنا ہرگز کوئی سائنسی و علمی رویہ نہیں۔
Flag Counter