Maktaba Wahhabi

102 - 250
کیونکہ عربی زبان میں ’’قرء‘‘ دونوں معنوں میں مستعمل ہے۔ علامہ شنقیطی لکھتے ہیں کہ یہاں ’’قرء‘‘ بمعنی طہر ہے، کیونکہ دوسری آیت میں ارشاد ہے۔ ﴿ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ﴾ یہاں پر نص نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عدت سے مراد طہر ہے، لہٰذا ثابت ہوا ﴿ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ﴾ کی مطلوبہ عدت ازروئے طہر ہے۔ علامہ شنقیطی آیت کی تفسیر دوسری آیت کی روشنی میں فرما رہے ہیں، لیکن بہرحال یہ ان کا اجتہاد ہے جو کہ محل خطاء و صواب دونوں کا احتمال رکھتا ہے۔ آیات الأحکام کی تفسیر میں مفسرین کا دیگر آیات سے استدلال عموماً اس طرح کی اجتہادی نوعیت کا ہے۔ ’’تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن‘‘ از مولانا ثناء اللہ امرتسری اور تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ از مولانا امین احسن اصلاحی اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔ چھٹی قسم یہ ہے کہ قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر دوسری آیت سے کی جائے، لیکن دونوں کو ملا کر جو نتیجہ نکالا جا رہا ہو وہ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم، اقوال صحابہ یا اجماع امت کے مخالف ہو۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ اصول بذات خود ٹھیک اور مسلّم ہے لیکن اس کی تطبیق غلط کی گئی ہے۔ اہل بدعت و ضلالت کا یہی طرزِ عمل ہے۔ قدیم معتزلہ سے لے کر جدید عقل پرستی کی تحریکات تک اکثر ’’معتزلہ و متجددین‘‘ اس قسم کی تفسیریں پیش کرتے رہے ہیں۔ مثلاً: مسٹر پرویز اور محمد علی لاہوری کو اس پر اصرار ہے کہ قرآن میں جس آدم کا ذکر ہے، وہ اولین فرد انسان نہیں ہیں، بلکہ نوع انسانی کے وجود پذیر ہونے کے بعد، کسی قبیلے کا ممتاز فرد تھا۔ اس مؤقف کی دلیل میں، یا یوں کہہ لیجئے کہ آیات تخلیق انسان کی تفسیر میں وہ دیگر قرآنی آیات سے ’’مزعوم استدلالات‘‘ پیش کرتے ہیں۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ قرآن نے سجدہ آدم کا ذکر کرتے ہوئے، جب بھی ابلیس کی طرف سے انسانوں کو گمراہ کرنے کی انتقامی کاروائی کا ذکر کیا ہے تو وہاں جمع کے صیغے کا استعمال کیا ہے۔ مثلاً: ﴿ قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ
Flag Counter