Maktaba Wahhabi

179 - 250
اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ دیگر شعراءِ عرب اور ائمہ لغت کا سرے سے کوئی مقام ہی نہیں، لیکن یہ مطلب ضرور ہے کہ فہمِ قرآن میں شعراءِ عرب اور ائمہ لغت کی طرف دوسرے درجے میں رجوع کیا جائے اور پہلے درجے میں صحابہ و تابعین کی طرف۔ مثال: غزوہ بدر کے پس منظر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ ﴿١١﴾﴾ (الانفال:11) ’’جب اللہ تعالیٰ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لیے اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا کہ اس پانی کے ذریعے سے تم کو پاک کر دے اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کر دے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور تمہارے پاؤں جما دے۔‘‘ لغت کے معروف امام ابو عبیدہ نے ’’ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ‘‘ کو مجازی معنی پر محمول کیا ہے اور لکھا ہے: ’’ مجازه:يفرغ عليهم الصبر وينزله عليهم فيثبتون لعدوهم‘‘ یعنی ثابت قدمی مجازی معنی میں ہے اور اس سے مراد ہے بھرپور صبر کا نزول تاکہ وہ دشمن کے سامنے ڈٹ جائیں۔ جبکہ صحابہ کرام جن پر احسانات کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ انہیں مخاطب کر رہا ہے اور جو خود اس واقعہ کے عینی شاہد اور شرکاء معرکہ ہیں ان کے نزدیک ’’ثابت قدمی‘‘ سے حقیقی معنی مراد ہے۔ ابو عبیدہ کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے امام طبری لکھتے ہیں: ’’وذلك قول خلاف لقول جميع أهل التأويل من الصحابة والتابعين، وحَسْبُ قول خطاً أن يكون خلافاً لقول من ذكرنا، وقد بينا أقوالهم فيه، وأن معناه: ويثبت أقدام المؤمنين بتلبيد المطر الرمل حتيٰ لا تسرح أقدامهم وحوافر دوابهم‘‘ [1]
Flag Counter