Maktaba Wahhabi

218 - 250
نے اصحاب کہف کی مدت قیام کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿ قُلِ اللّٰه أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا ۖ لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ (الکہف:26) ’’کہہ دو کہ جتنی مدت وہ رہے اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ اسی کو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں (معلوم) ہیں۔‘‘ أصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں ہدایت فرمائی: ﴿ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم﴾ (الکہف: 22) ’’کہہ دیجئے! میرا پروردگار ہی ان کے شمار سے خوب واقف ہے۔‘‘ اسی حزم و احتیاط کی بناء پر بعض صحابہ و تابعین تفسیر قرآن میں اپنی رائے دینے سے بہت اجتناب کرتے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی، جبرالأمۃ، ترجمان القرآن اور دعائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حامل ہونے کے باوجود بعض آیات کی تفسیر میں مطلق سکوت اختیار کرتے تھے۔ ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے: ’’ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ سُئِلَ عَنْ آيَةٍ لَوْ سُئِلَ عَنْهَا بَعْضُكُمْ لَقَالَ فِيهَا، فَأَبَى أَنْ يَقُولَ فِيهَا‘‘ [1] ’’سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک آیت کے بارے میں پوچھا گیا، لیکن انہوں نے اس بارے میں کچھ کہنے سے انکار کیا، حالانکہ اگر تم میں سے کسی سے اس آیت کے بارے میں پوچھا جاتا تو ضرور کچھ کہہ دیتا۔‘‘ عظیم تابعی سعید بن المسیب سے کسی آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو کہا: ((إنا لا نقول في القرآن شيئاً)) [2] ’’ہم لوگ تفسیر قرآن کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے۔‘‘
Flag Counter