Maktaba Wahhabi

240 - 250
’’کچھ لوگوں نے مخصوص نظریات قائم کر لیئے اور پھر الفاظِ قرآنی کو ان پر محمول کیا۔‘‘ عہد عباسی سے لے کر آج تک امت اسلامیہ میں ایسے افراد کی ایک جماعت موجود رہی ہے، جس نے اپنے عہد کے رائج علوم و معارف میں خوب پختگی حاصل کی اور آہستہ آہستہ مروجہ علوم و معارف ان کے قوائے فکرونظر پر کچھ ایسے مسلط ہو گئے کہ وہ ان مقرر کردہ دائروں سے باہر نکل کر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے۔ اس کے بعد جب انہوں نے قرآن کریم کی طرف رجوع کیا اور اس کی بہت ساری باتیں انہیں اپنے مانوس علوم و معارف اور آئیڈیل فلسفے کے خلاف محسوس ہوئیں تو انہوں نے اس فلسفے کو جھٹلانے کی بجائے قرآن کریم میں تحریف و ترمیم شروع کر دی اور اس کے الفاظ کو کھینچ تان کر اپنے مزعومہ افکار کے مطابق بنانا شروع کر دیا۔ [1] سید قطب رحمہ اللہ نے اس فکری انحراف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’وإني لأعجب لسذاجة المتحمسين لهذا القرآن الذين يحاولون أن يضيفوا إليه ما ليس منه، وأن يحملوا عليه ما لم يقصد إليه، وأن يستخرجوا منه جزئيات في علوم الطب والكيمياء والفلك وما إليها.. كأنما ليعظموه بهذا ويكبروه۔إن القرآن كتاب كامل في موضوعه، وموضوعه أضخم من تلك العلوم‘‘ [2] ’’قرآن سے جذباتی تعلق رکھنے والے ان لوگوں کی سادگی پر مجھے بڑی حیرانی ہوتی ہے، یہ لوگ قرآن میں وہ کچھ شامل کرنا چاہتے ہیں جس کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں، یہ قرآن سے وہ کہلوانا چاہتے ہیں جو اس کے مقاصد سے باہر ہے اور یہ لوگ قرآن مجید سے طب، کیمسٹری، فلکیات وغیرہ کی تفصیلات اس
Flag Counter