Maktaba Wahhabi

78 - 250
معیار نہیں تو پھر حیرانی و سرگردانی کا سلسلہ آخر کیسے رک پائے گا؟ منہج تفسیر بالمأثور وحی کی تلقّی کا جو انداز طے کرتا ہے، یہ وہی انداز ہے جو خود صاحب وحی کے زیر نگرانی اور اس کے زیر ہدایت پروان چڑھا ہے اور جس کی تراش خراش خود صاحب وحی کے ہاتھ سے ہوئی ہے۔ کتاب مبین کو نازل فرمانے والی علیم و حکیم ہستی خود مطالبہ کرتی ہے کہ جس کے سینہ اطہر اور قلب امین پر میں نے قرآن نازل کیا ہے، اس کی تشریحات کی روشنی میں سب انسان تفکر و تدبر کے پابند ہوں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٤﴾ ’’اور ہم نے یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائیں جو ان کے لیے اتاری گئی ہے اور تاکہ لوگ (خود بھی) غوروفکر کریں۔‘‘ (النحل:44) صاحب وحی اور مخاطبین وحی کو نظرانداز کر کے یا ثانوی حیثیت دے کر مصحف شریف اٹھا کر اس پر تدبر شروع کر دینا، یقیناً قرآن مجید کے طریقہ نزول اور مقصود نزول دونوں ہی کے منافی ہے۔ احادیث و آثار سے قطع نظر صرف مصحف شریف سے استنباط و استدلال کے ذریعے سے تو بعض دفعہ منافق انسان بھی اپنی زبان آوری کی بنیاد پر اپنے فہم کا سکہ منوا لیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا ہے: ((لا تُجادِلوا بالقرآنِ ، ولا تُكَذِّبوا كتابَ اللّٰه بعضَه ببعضٍ ؛ فواللّٰه ! إنَّ المؤمنَ لَيُجادِلُ بالقرآنِ فيُغلَبُ ، وإنَّ المنافقَ لَيُجادِلُ بالقرآنِ فيَغلِبُ)) [1] ’’قرآن مجید کو اپنے بحث و تکرار کا ذریعہ نہ بناؤ نہ ہی کتاب الٰہی کی کچھ آیات کو بہانہ بنا کر دوسری آیت کی تکذیب کرو، اللہ کی قسم! بلاشبہ بعض دفعہ مؤمن صادق قرآن کی روشنی میں بحث کرتا ہے، لیکن شکست کھا جاتا ہے اور بلاشبہ بعض دفعہ منافق قرآن کے ذریعہ بحث کرتا ہے اور مؤمن کو شکست دے دیتا ہے۔‘‘
Flag Counter