Maktaba Wahhabi

88 - 250
نے اپنے نفس پر ظلم نہیں کیا؟ (یعنی انہوں نے ظلم کو عام غلطی کے معنیٰ میں سمجھا)، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ليس كما تظنون، إنما قال لابنه: ﴿يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰه ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴾﴾ ’’اس کا مفہوم یہ نہیں جو آپ لوگوں نے سمجھا ہے، (اس سیاق میں) ظلم سے مراد صرف وہ ظلم ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جناب لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا تھا: اے میرے بیٹے! اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک مت کرنا، بلاشبہ شرک ظلم عظیم ہے۔‘‘ [1] روزوں کے سیاق میں ارشاد ربانی ہے: ﴿ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ﴾ (البقرۃ:187) ’’اور کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔ پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو۔‘‘ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت ﴿ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ ﴾ نازل ہوئی تو میں نے سیاہ اور سفید دو دھاگوں کا انتظام کیا اور انہیں اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا، کہتے ہیں: میں ان دھاگوں کو دیکھتا، جب سیاہ و سفید نمایاں دکھائی دینے لگے تب سحری سے رکا، صبح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے اس طرز عمل کے بارے میں آپ کو بتایا، آپ نے فرمایا: ((إنَّ وِسادَكَ لَعَريضٌ، إنَّما ذلك بَياضُ النَّهارِ وسوادُ اللَّيلِ)) ’’تیرا تکیہ تو بڑا وسیع و عریض ہے، اس سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی تاریکی ہے۔ نہ کہ دھاگے کی سفیدی اور تاریکی۔‘‘ [2]
Flag Counter