Maktaba Wahhabi

96 - 250
جہاں تک پہلے اشکال کا تعلق ہے تو یہ اشکال تفسیر بالمأثور کے لغوی مفہوم کے لحاظ سے پیدا ہوا ہے۔ لغوی لحاظ سے تو ہر منقول چیز مأثور ہو سکتی ہے، لیکن تفسیر بالمأثور کو لغوی طور پر نہیں، بلکہ ماہرین علوم القرآن کی ایک متفقہ اصطلاح کے طور پر دیکھنا چاہیے، اس لحاظ سے تفسیر سے متعلقہ احادیث نبویہ، آثار صحابہ اور اقوال تابعین ہی ’’تفسیر بالمأثور‘‘ سے مراد لیے جاتے ہیں۔ دوسرے اشکال کی وجہ تفسیر بالمأثور اور تفسیر بالرأی کا ظاہری طور پر باہمی تداخل ہے، جبکہ حقیقت واقعہ اور روح و مقصد کے اعتبار سے یہ دونوں مناہج بالکل الگ اور نمایاں ہیں۔ ان کی حدود رجحان غالب اور غرض و غایت کے لحاظ سے بالکل واضح، علیحدہ اور متعین ہیں، بایں معنیٰ کہ تفسیر بالمأثور میں ایک مفسر اور جامع کا رجحان غالب اور بنیادی مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور تابعین کے تفسیری ورثے کی حفاظت و تدوین ہوتا ہے۔ یہی تفسیری ورثہ اگلی نسلوں تک مرتب شکل میں پہنچانا ’’تفسیر بالمأثور‘‘ کی روح اور غرض و غایت ہے۔ مفسر کی عقل و درایت اور اجتہادات اس عظیم ورثے کی روایت اور تفہیم و تشریح میں بطور خادم کار فرما ہوتے ہیں، اور اس معنیٰ میں عقل و درایت کی ضرورت و اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا۔ جبکہ اس کے برعکس تفسیر بالرأی میں احادیث و آثار اور فہم سلف کو قارئین تک منتقل کرنا مقصود اصلی نہیں ہوتا، بلکہ اس میں ایک مفسر اپنے فہم قرآن، حاصل مطالعہ اور تفسیری اجتہادات کو قارئین تک پہنچانا چاہتا ہے، اور بطورِ تائید احادیث و اقوال کا بھی تذکرہ کرتا ہے، اگر قرآن مجید، احادیث و آثار سے واقعتاً اسی فہم کی تائید ہو رہی ہو تو یہ ’’ تفسير بالرأي المحمود‘‘ ہے، بصورت دیگر اسے ’’ تفسير بالرأي المذموم‘‘ سے تعبیر کیا جائے گا۔
Flag Counter